کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 134
’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو، اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو تم دل کے ارادے سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لِلّٰہٗ اَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِہٖ حِینَ یَتُوبُ اِلَیْہِ مِنْ اَحَدِکُمْ کَانَ عَلَی رَاحِلَتِہٖ بِاَرْضِ فَلَاۃٍ فَانْفَلَتَتْ مِنْہٗ وَعَلَیْہَا طَعَامُہٗ وَشَرَابُہٗ فَاَیِسَ مِنْہَا فَاَتٰی شَجَرَۃً فَاضْطَجَعَ فِیْ ظِلِّہَا قَدْ اَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِہٖ فَبَیْنَا ہُوَ کَذٰلِکَ اِذَا َ بِہَا قَائِمَۃً عِنْدَہٗ فَاَخَذَ بِخِطَامِہَا ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ عَبْدِی وَاَنَا رَبُّکَ اَخْطَاَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ)) (صحیح مسلم، التوبۃ، باب فی ا لحض علی التوبۃ والفرح بہا، ح:۲۷۴۷۔) ’’اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے، جب بندہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرتا ہے، تمہارے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی جنگل میں اپنی سواری پر تھا اور اس کی سواری گم ہوگئی، جس پر اس کے کھانے پینے کا سامان بھی لداہوا تھا۔ وہ اس سے مایوس ہو کر ایک درخت کے سائے میں آکر لیٹ گیا اس حال میں کہ وہ اپنی سواری سے بالکل مایوس ہوچکا تھا، لیکن اچانک وہ (دیکھتا ہے کہ) اس کی سواری اس کے پاس کھڑی ہے۔ اس نے اس کی مہار کو پکڑا اور مارے خوشی کے فرط مسرت کی وجہ سے یہ کہہ دیا کہ اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں، یعنی خوشی کی انتہا کی وجہ سے اس سے یہ غلطی سرزدہوگئی۔‘‘ کفر کا حکم لگانے سے جو امور مانع ہیں، ان میں سے ایک امریہ بھی ہے کہ وہ کسی شبہے کی وجہ سے تاویل سے کام لے رہا ہو اور وہ اس مغالطہ میں ہو کہ وہ حق پر ہے کیونکہ ایسا شخص قصد وارادے سے گناہ اور مخالفت کا ارتکاب نہیں کرتا اس لئے وہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں داخل ہے: ﴿وَ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَ لٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ﴾(الاحزاب: ۵) ’’اور جو بات تم سے غلطی سے ہوگئی ہو، اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن جو تم دل کے ارادے سے کرو (اس پر مواخذہ ہے)۔‘‘ الا یہ کہ اس کی کوشش کی انتہا یہی ہے، اس وجہ سے وہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ میں بھی داخل ہے: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (البقرۃ: ۲۸۶) ’’اللہ کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔‘‘ المغنی (۸/۱۳۱) میں ہے: ’’اگر کسی شخص نے بے گناہ لوگوں کے قتل یا ان کے اموال لوٹنے کو کسی شبہے یا تاویل کے بغیر حلال قرار دے لیا تو ایسا شخص بھی کافر ہو جائے گا اور اگر کسی تاویل کے ساتھ حلال قرار دیاہو جیسا کہ خوارج کرتے ہیں تو اکثر فقہاء نے انہیں کافر قرار نہیں دیا، حالانکہ وہ مسلمانوں کے خونوں اور مالوں کو حلال قرار دیتے ہیں اور اسے تقرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘ اس بارے میں انہوں نے آگے لکھا ہے: ’’خوارج کا یہ مذہب مشہورومعروف ہے کہ یہ خوارج ہی ہیں جو بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کے قائل ہیں اور ان کے خونوں اور