کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 133
’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عظمت وکبریائی میری اوپر ی چادر اور عظمت میرے نیچے کی چادر ہے، جو شخص ان میں سے کسی ایک چادرکو مجھ سے چھیننے کی کوشش کرے، تو میں اسے جہنم میں پھینک دوں گا۔‘‘ لہٰذا تکفیر کا حکم لگانے سے پہلے ان دو باتوں کو دیکھنا واجب ہے: ۱۔ کیا کتاب وسنت کی دلیل اس بات پر موجود ہے کہ یہ کفر ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی طرف کذب وافترا کی نسبت نہ کی جا سکے۔ ۲۔ کیا اس معین شخص پر یہ حکم نافذ ہوتا ہے کہ اس کے حق میں تکفیر کی شرائط پوری اترتی ہیں جس کی بنیادپر اسے کافر قرار دینے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔ ان شرائط میں سے ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ اسے اپنی اس مخالفت کا علم ہو جو اس کے لیے موجب کفر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ م بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا، ﴾ (النساء: ۱۱۵) ’’اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا دوسرے راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔‘‘ جہنم کی سزا کے لیے یہ شرط قرار دی گئی ہے کہ ہدایت واضح ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کی جائے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس بارے میں یہ بھی شرط ہے کہ اسے یہ بات معلوم ہو کہ اس مخالفت کی وجہ سے کفر وغیرہ لازم آئے گا یا اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اسے اس بات کا علم ہو کہ وہ مخالفت کر رہا ہے، خواہ اس کے نتائج کے بارے میں اسے معلوم ہویا نہ ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ محض یہ معلوم ہونا ہی کافی ہے کہ وہ مخالفت کر رہا ہے، خواہ اس کے نتائج کے بارے میں اسے واقفیت نہ بھی ہو تب بھی وہ اس حکم کے تحت جہنم کی سزاکا مستحق قرارپائے گا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے دن میں مجامعت کرنے والے پر کفارہ واجب قرار دیا ہے، خواہ حکم شریعت کی اس مخالفت کا اسے علم ہو اور کفارہ کے بارے میں علم نہ ہو،اسی طرح اس شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا جسے زنا کی حرمت کا تو علم ہو مگر زنا کے نتیجے میں ملنے والی سزا کا علم نہ ہو یا بسا اوقات اسے زنا ہی کا علم نہ ہو۔ کفر کا حکم لگانے سے جو امور مانع ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اسے کفر پر مجبور کر دیا گیا ہو۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ، ﴾(النحل: ۱۰۶) ’’جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے، سوائے اس کے جسے (کفر پر) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو، بلکہ وہ جو دل کھول کر کفر کرے، تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ اسی طرح ایک امر مانع یہ بھی ہے کہ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ہوگئی ہو اور خوشی یا غمی یا غضب وخوف وغیرہ کی شدت کی وجہ سے اسے یہ معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَ لٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾ (الاحزاب: ۵)