کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 132
ہے۔ پہلی بات تو واضح ہے کہ اس نے اس شخص پر کفر کا حکم لگایا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کافر قرار نہیں دیا۔ اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی چیز کو حرام قرار دے دے کیونکہ تکفیر و عدم تکفیر کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کا ہے، جس طرح حلال و حرام کا اختیار صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس نے مسلمان کا ایک ایسا وصف بیان کیا ہے جس سے وہ موصوف نہیں ہے گویا کہ اس نے کہا ہے کہ وہ کافر ہے، حالانکہ وہ کفرسے بری ہے، اس بنیادپرہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر قرار دینے کی وجہ سے یہ خود کافر ہو جائے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اِذَا اَکْفَرَ الرَّجُلُ اَخَاہُ فَقَدْ بَائَ بِہَا اَحَدُہُمَا)) (صحیح البخاری، الادب، باب من کفر اخاہ من غیر تاویل، ح:۶۰۱۴ وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان حال من قال الاخیہ المسلم: یاکافر، ح: ۶۰، واللفظ لہ۔) ’’جب کوئی شخص اپنے بھائی کو کافر قرار دے، تو ان میں سے ایک کافر ہوتا ہے۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے: ((اِنْ کَانَ کَمَا قَالَ وَاِلاَّ رَجَعَتْ عَلَیْہِ)) (صحیح مسلم، الایمان، باب بیان حال من قال لاخیہ المسلم: یاکافر، ح:۶۰۔) ’’اگر وہ ایسا ہے جیسا اس نے کہا، (تو ٹھیک) ورنہ یہ بات اس پر پلٹ آتی ہے اور اس پر چسپاں ہوجاتی ہے ۔‘‘ اور صحیح مسلم ہی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْکُفْرِ، اَوْ قَالَ: عَدُوَّ اللّٰہِ! وَلَیْسَ کَذٰلِکَ، اِلاَّ حَارَ عَلَیْہِ))( صحیح مسلم، الایمان، باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم: یا کافر! ح:۶۱۔) ’’جس نے کسی شخص کو کافر کہہ کر بلایا یااسے اللہ کا دشمن کہا حالانکہ وہ ایسا نہ ہو تو یہ بات اس پر لوٹ آئے گی۔‘‘ حدیث ابن عمر میں جو یہ الفاظ ہیں: ’’اگر وہ ایسا ہے جیسا اس نے کہا‘‘ تو اس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے حکم میں (اسی طرح ہے) اسی طرح حدیث ابو ذر کے یہ الفاظ: ’’اور اگر وہ ایسا نہ ہو‘‘ کے معنی بھی یہی ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم میں ایسا نہ ہو۔ یہ دوسرا خطرہ یعنی وصف کفر کا اس پر لوٹ آنا جب کہ اس کا بھائی اس سے بری ہو، دراصل یہ بھی عظیم خطرہ ہے درحقیقت اس میں مبتلا ہونے کا ڈر پایاہے کیونکہ جو شخص مسلمان کو کافر قرار دیتا ہے تو اکثر و بیشتر ایسا شخص اپنے اس عمل پر فخر کرتا اور دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے گویاکہ اس طرح وہ فخر اور تکبر کو جمع کر لیتا ہے، جب کہ فخر سے عمل رائے گاں ہو جاتا ہے اور تکبر موجب عذاب الٰہی ہے جیسا کہ اس حدیث میں ہے جسے امام احمد اور امام ابوداود رحمہ اللہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((قَالَ اللّٰہُ عز وجلُ الْکِبْرِیَائُ رِدَائِی وَالْعَظَمَۃُ إِزَارِی فَمَنْ نَازَعَنِی وَاحِدًا مِّنْہُمَا قَذَفْتُہُ فِی النَّارِ)) (سنن ابی داود، اللباس، باب ماجاء فی الکبر، ح:۴۰۹۰، وسنن ابن ماجہ، الزہد، باب البراء ۃ من الکبر والتواضع، ح: ۴۱۷۴۔)