کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 131
ہے جس کی مخالفت کرنے والا کبھی کافر، کبھی فاسق اور کبھی نافرمان ہوتا ہے۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی خطا کو معاف کر دیا ہے، خطا کا تعلق خواہ خبری و قولی مسائل سے ہو یا عملی مسائل سے۔ سلف کا ان بہت سے مسائل میں اختلاف رہا ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے کسی کو کافر یا فاسق یا نافرمان قرار نہیں دیا۔‘‘ آپ نے آگے مزید لکھا ہے: ’’میں یہ بھی بیان کرتا رہا ہوں کہ سلف اور ائمہ سے جو یہ منقول ہے کہ جو شخص یہ کہے وہ کافر ہے تو یہ بھی حق ہے لیکن اطلاق اور تعیین میں فرق کرنا واجب ہے۔‘‘ آپ نے پھر یہ بھی لکھا ہے: ’’تکفیر کا تعلق وعید سے ہے گویا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تکذیب ہے، لیکن ہوتا یہ ہے کہ کبھی آدمی نیا نیا دائرۂ اسلام میں داخل ہوتا ہے یا اس نے دور دراز کے کسی جنگل میں تربیت پائی ہوتی ہے، تواس صورت میں کسی شخص کو انکار کی وجہ سے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا حتیٰ کہ اس پر حجت قائم نہ ہو جائے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے ان نصوص کو سنا نہ ہو یا سنا تو ہو مگر وہ اس کے نزدیک ثابت نہ ہوں یا کوئی معارض ان کے مخالف ہو، جس کی وجہ سے ان کی تاویل واجب ہوگئی ہو، خواہ وہ سمجھنے میں غلطی پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘[1] شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے ’’الدرر السنیۃ‘‘ ۱/۵۶ میں لکھا ہے: ’’جہاں تک تکفیرکا تعلق ہے تو میں اس شخص کو کافروں میں شمارکرتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پہچاننے کے بعد اسے گالی دے، لوگوں کو اس سے روکے اور دین کو اختیار کرنے والے سے دشمنی رکھے تو ایسے شخص کو میں کافر سمجھتا ہوں۔‘‘ آگے لکھتے ہیں: ’’جہاں تک کذب و بہتان کا تعلق ہے، تو اس بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ ہم بالعموم ان پرکفر کا فتویٰ لگاتے ہیں اور جو شخص اپنے دین کے اظہار پر قادر ہو، اس کے لیے اپنی طرف ہجرت کو واجب قرار دیتے ہیں، یہ ساری باتیں محض کذب وبہتان ہیں، جن کے ساتھ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے لوگوں کو روکتے ہیں۔ جب ہم اس صنم کی عبادت کرنے والوں کو بھی کافر نہیں سمجھتے، جو عبدالقادر یا علی احمد بدوی کی قبر پر نصب ہیں کیونکہ یہ لوگ جاہل ہیں اور انہیں کوئی آگاہ کرنے والا بھی نہیں، تو اس شخص کو ہم کیسے کافر قرار دے سکتے ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے، محض اس لیے کہ اس نے ہماری طرف ہجرت نہیں کی حالانکہ اس نے کفر کیا ہے نہ قتال۔‘‘[2] اگر کتاب وسنت کے نصوص اور کلام اہل علم کا مقتضا یہ ہے، تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے لطف وکرم کا بھی تقاضا یہ ہے کہ وہ اس وقت تک کسی کو عذاب نہ دے جب تک اس کے عذر کو ختم نہ کر دے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے جو حقوق واجب ہیں عقل انہیں مستقل طور پر نہیں پہچان سکتی۔ اگر عقل انہیں مستقل طور پر پہچان سکنے پر قادر ہوتی تو حجت رسولوں کے ارسال کرنے پر موقوف نہ ہوتی۔ وہ اصول یہ ہے کہ جو شخص اسلام کی طرف انتساب رکھے، اسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا حتیٰ کہ کسی دلیل شرعی سے ثابت ہو جائے کہ وہ اب مسلمان نہیں رہا، مگر اس شخص کی تکفیر میں بے احتیاطی جائز نہیں کیونکہ اس کی تکفیر میں دو بڑے خطرات ہیں: ۱۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم میں اور محکوم علیہ کے اس وصف میں کذب وافترا ہے جس کے ساتھ اسے مورد الزام ٹھہرایا گیا
[1] مجموع الفتاوی: ۳/۲۲۹، جمع وترتیب ابن قاسم۔ [2] الدرر السنیۃ: ۱/ ۵۶،۶۶۔