کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 121
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ جنین پر شکم مادر میں جب چار ماہ گزر جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجتا ہے جو اس میں روح پھونکتا اور اس کا رزق، اجل، عمل اور اس کا بدبخت یا سعادت مند ہونا لکھ دیتا ہے۔[1] رزق بھی اسباب کے ساتھ مقدر ہے، اس میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ اس بات کا تعلق بھی اسباب ہی کے ساتھ ہے کہ انسان طلب رزق کے لیے کام کرے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ ذَلُوْلًا فَامْشُوْا فِیْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہِ وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ، ﴾ (الملک: ۱۵)
’’وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو نرم کیا، پس اس کی راہوں میں چلو پھرو اور اللہ کا
(دیا ہوا) رزق کھاؤ اور (تم کو) اسی کے پاس (قبروں سے) نکل کر جانا ہے۔‘‘
اسباب رزق میں سے صلہ رحمی بھی ہے، یعنی والدین کے ساتھ نیکی اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((مَنْ أحبُ أَنْ یُبْسَطَ لَہُ فِی رِزْقِہِ أَوْ یُنْسَأَ لَہُ فِی أَثَرِہِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ)) (صحیح البخاری، کتاب البیوع،باب من أحب البسط فی الرزق(۲۰۶۷)
’’جو شخص اس بات کو پسند کرے کہ اس کے رزق میں کشادگی اور اس کی عمر میں درازی ہو تو اسے صلہ رحمی سے کام لینا چاہیے۔‘‘
اسی طرح اسباب رزق میں سے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنا بھی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا، وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ﴾ (الطلاق:۲۔۳)
’’اور جو کوئی اللہ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے (رنج ومحن سے) نکلنے کی صورت پیدا دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطاء فرماتاہے، جہاں سے اسے (وہم و) گمان بھی نہ ہو۔‘‘
لیکن تم یہ نہ کہو کہ رزق تو لکھا ہوا اور مقرر کیا ہوا ہے، لہٰذا میں اسباب رزق اختیار نہیں کروں گا کیونکہ یہ عجز ودرماندگی ہے، جب کہ عقل مندی اور احتیاط یہ ہے کہ آپ رزق حاصل کرنے کے لیے سعی وکاوش کریں اور ان باتوں کے حصول کے لیے کوشش کریں جو دین ودنیا میں آپ کے لیے نفع بخش ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
((اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَہُ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ اَتْبَعَ نَفْسَہُ ہَوَاہَا وَتَمَنَّی عَلَی اللّٰہِ الأمانی)) (جامع الترمذی، صفۃ القیامۃ باب حدیث: ’’الکیس من دان نفسہ…، ح:۲۴۵۹ وسنن ابن ماجہ، الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ح:۴۲۶۰۔)
’’عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل کرے اور عاجز وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے پیچھے لگا دے اور اللہ تعالیٰ سے امیدیں باندھ رکھے۔‘‘
جس طرح رزق اسباب کے ساتھ مکتوب اور مقدر ہے، اسی طرح شادی بھی مکتوب اور مقدر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لیے یہ لکھ دیا ہے کہ فلاں کی فلاں سے شادی ہوگی بلاشبہ اللہ تعالیٰ سے تو زمین اور آسمان کی کوئی چیز بھی مخفی نہیں ۔
[1] صحیح البخاری، بدء الخلق، باب ذکر الملائکۃ صلوات اللّٰه علیہم، حدیث: ۳۲۰۸۔