کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 120
ہمیں معافی کا پروانہ عطاء فرما دے۔ اِنَّہٗ جَوَّادٌ کَرِیْمٌ۔
کیا دعا سے تقدیر بدل سکتی ہے ؟
سوال ۶۱: انسان کی تخلیق سے قبل اس کی تقدیر میں جو لکھ دیا گیا ہے، کیا دعا سے اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے؟
جواب :اس میں کچھ شک نہیں کہ دعا کی تاثیر سے لکھی ہوئی تقدیر میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن اس تبدیلی کے بارے میں بھی لکھ دیا گیا ہوتا ہے کہ یہ دعا کے سبب سے ہوگی، لہٰذا آپ یہ گمان نہ کریں کہ آپ جب دعا کرتے ہیں تو وہ لکھی ہوئی نہیں ہے بلکہ دعا بھی لکھی ہوئی ہے اور دعا سے یہ حاصل ہونے والی چیزیں بھی لکھی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں جب کوئی شخص مریض پر آیات پڑھ کر اسے دم کرتا ہے تو مریض کو اس کی بناء پر شفا نصیب ہو جاتی ہے۔ اس بارے میں اس سریے والا کا قصہ مشہور ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مہم سر کرنے کی غرض سے بھیجا تھا، مہم پر مامورلوگ راستہ میں ایک قوم کے پاس مہمان کی حیثیت سے مقیم ہوئے مگر ان لوگوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی۔ تقدیر کی بات کہ ان کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا تو وہاں کے لوگوں نے پوچھا کیا کوئی دم کرنے والا ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ شرط عائد کی کہ وہ اجرت لے کر دم کریں گے، چنانچہ انہوں نے بطور اجرت بکریوں کا ایک ریوڑ دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے جا کر اسے سورۃ الفاتحہ پڑھ کر دم کر دیا۔ دم کی برکت سے سانپ گزیدہ اس طرح اٹھ بیٹھا گویا کہ وہ اونٹ ہو جس کی رسی کو کھول دیا گیا ہو۔ سورۂ فاتحہ کے دم نے مریض کی شفا یابی میں اپنا اثر دکھا دیا جس کی بنیادپر وہ بھلا چنگا ہوگیا۔
دعا میں بلا شبہ تاثیر ہے لیکن اسے تقدیر میں تبدیلی تصور نہیں کیا جائے گا بلکہ یہ تبدیلی تو دعا کے سبب لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ بلاشبہ ہر چیز اللہ تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے، اسی طرح تمام اسباب کی ان کے مسببات میں اللہ تعالیٰ ہی کے حکم سے تاثیر ہوکرتی ہے، تومعلوم یہ ہوا کہ اسباب بھی مقدرکئے ہوئے ہیں اور مسببات بھی لکھے ہوئے ہیں۔
سوال ۶۲: کیا رزق اور شادی کے بارے میں بھی لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے؟
جواب :جب سے اللہ تعالیٰ نے قلم کو پیدا فرمایا ہے، اس وقت سے لے کر قیامت تک ہونے والی ہر چیز لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((اَوَّلُ مَا خَلَقَ ٰالْقَلَمَ قَالَ لَہٗ: اُکْتُبْ قَالَ:ربی وَمَاذا اَکْتُبُ قَالَ:أکتب مَا ہُوَ کَائِن، فجری فی تلک الساعۃ بماھو کائنٌ اِلَی یوم القیامۃ)) (مسند احمد:۵/۳۱۷ وسنن ابی داود، السنۃ، باب فی القدر، ح:۴۷۰۰ وجامع الترمذی، القدر، باب اعظام امر الایمان بالقدر، ح:۲۱۵۵۔)
’’سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا، پھر اس سے فرمایا لکھو۔ قلم نے کہا: میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تقدیر کے اعتبارجو ہونے والاہے وہ لکھو۔‘حکم کی تعمیل میں قلم رواں ہوگیا: ’’ اور جو قیامت تک جو کچھ ہونے ہونے والا ہے اس نے وہ سب کچھ لکھ دیا۔‘‘
اور ایک رویت میں ہے کہ آپ نے فرمایا :
((فَجَرَى فِي تِلْكَ السَّاعَةِ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ))(مسند احمد :5/ 317)
قیامت کے دن جو کچھ ہونے والا تھا، اسے لکھنے کے لیے قلم اسی وقت چل پڑی۔‘‘