کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 119
قریب تر تھے۔ صحیح بخاری میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَا مِنْکُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ کُتِبَ مَقْعَدُہُ مِنَ الْجَنَّۃِ وَمَقْعَدُہُ مِنَ النَّارِ فَقَلنا یَا رَسُولَ اللّٰہِ أَفَلَا نَتَّکِل؟ [وفی روایۃ أفلا نتکل علی کتابنا وندع العملسوال قال:لاَ اِعْمَلُوا فَکُلٌّ مُیَسَّر)) (صحیح البخاری، کتاب القدر، باب وکان أمراللّٰه قدرامقدورا،ومسلم،کتاب القدر،باب کیفیۃ خلق الآدمی فی بطن أمہ(۲۶۴۷)
’’تم میں سے ہر ایک کا جنت یا جہنم میں ٹھکانا لکھ دیا گیا ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم بھروسا نہ کرکے نہ بیٹھ رہیں؟ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ’’ کیا ہم اپنے لکھے ہوئے پر بھروسا نہ کر لیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’نہیں، تم عمل کرو، ہر ایک کے لیے (اس کے عمل کو) آسان کر دیا گیا ہے۔‘‘
اور ایک دوسری روایت میں ہے:
((اِعْمَلُوا فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہُ أَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ السَّعَادَۃِ فَیُیَسَّرُ لِعَمَلِ أَہْلِ السَّعَادَۃِ وَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنْ أَہْلِ الشِّقَائِ فَیُیَسَّرُ بِعَمَلِ أَہْلِ الشَّقَاوَۃِ)) (صحیح البخاری، التفسیر، باب: ﴿فسنیسرہ للعسری﴾ ح: ۴۹۴۹ وصحیح مسلم، القدر، باب کییفۃ خلق الآدمی فی بطن امہ ح: ۲۶۴۷ ومسند احمد: ۱/۱۲۹۔)
’’تم عمل کرو، ہر ایک کو اس عمل کی توفیق ملتی رہتی ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے، چنانچہ جو شخص اہل سعادت میں سے ہو، اس کے لیے سعادت کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے اور جو شخص اہل شقاوت میں سے ہو، اس کے لیے شقاوت و بدبختی کے عمل کو آسان کر دیا جاتا ہے۔‘‘ پھر آپ نے ان آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی:
﴿فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی، فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرٰی، وَاَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی، وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی، فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی، ﴾ (اللیل: ۵۔۱۰)
’’تو جس نے (اللہ کے راستے میں مال) دیا اور پرہیزگاری کی اور نیک بات کو سچ جانا، یقینا ہم اسے آسان طریقے (نیکی) کی توفیق دیں گے اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا، تو یقینا ہم اسے مشکل راہ (بدی) کے لیے سہولت دیں گے۔‘‘
اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب تقدیر پر بھروسا کرتے ہوئے عمل ترک کر دینے سے منع فرما یاہے الایہ کہ اس بات کے معلوم کرنے کا کوئی راستہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کتاب تقدیر میں اس کے لئے کیا لکھ رکھا ہے ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے بندوں کو اپنی استطاعت اور مقدور کے مطابق عمل کرنے کا حکم دیا ہے اور آپ نے اس آیت کریمہ سے استدلال فرمایا جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص بھی نیک عمل کرے اور ایمان لے آئے تو اسے آسان طریقے پر عمل درآمدکی توفیق دے دی جاتی ہے۔ یہی نافع اور ثمر بارودا ء ہے، اسی سے انسان عافیت وسعادت حاصل کرسکتا ہے بندے کو چاہئے کہ وہ ایمان پر مبنی عمل صالح کے لیے سرگرم عمل ہو جائے اور جب اسے دنیا و آخرت کی بھلائیوں کی آسانی کی توفیق مل جائے تو وہ اس پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے، آسان طریقے کی طرف ہماری راہنمائی فرمائے، مشکل اور سخت طریقے سے بچائے اور دنیا وآخرت میں