کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 118
دور رہ سکتی ہے نہ بندے کے اختیاری یا اضطرابی افعال ہی سے شذوذ کی راہ اختیارکر سکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِی السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ اِنَّ ذٰلِکَ فِیْ کِتٰبٍ اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ، ﴾ (الحج: ۷۰)
’’کیا تم نہیں جانتے کہ جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے، اللہ اس کو جانتا ہے، یہ (سب کچھ) کتاب میں (لکھا ہوا) ہے بے شک یہ سب کچھ اللہ پر آسان ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا وَ لَوْ شَآئَ رَبُّکَ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ، ﴾ (الانعام: ۱۱۲)
’’اور اسی طرح ہم نے شیطان (صفت) انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا، وہ دھوکا دینے کے لیے ایک دوسرے کے دل میں ملمع کی ہوئی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور (اے نبی!) اگر آپ کا پروردگار چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا آپ ان کو اور جو کچھ یہ افترا کرتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ کَذٰلِکَ زَیِّنَ لِکَثِیْرٍ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ قَتْلَ اَوْلَادِہِمْ شُرَکَآؤُہُمْ لِیُرْدُوْہُمْ وَلِیَلْبِسُوْا عَلَیْہِمْ دِیْنَہُمْ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا فَعَلُوْہُ فَذَرْہُمْ وَ مَا یَفْتَرُوْنَ، ﴾ (الانعام: ۱۳۷)
’’اور اسی طرح بہت سے مشرکوں کے لیے ان کے دیوتاؤں نے ان کی اولاد کا قتل پسندیدہ بنا رکھا ہے تاکہ وہ انہیں ہلاکت میں ڈال دیں اور ان کے لیے ان کا دین مشکوک بنا دیں اور اگر اللہ چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے، لہٰذا آپ ان کو اور جو کچھ وہ جھوٹ باندھتے ہیں اسے چھوڑ دیں۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلَ الَّذِیْنَ مِنْ م بَعْدِہِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا جَآئَ تْہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ لٰکِنِ اخْتَلَفُوْا فَمِنْہُمْ مَّنْ اٰمَنَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ کَفَرَ وَ لَوْ شَآ ئَ اللّٰہُ مَا اقْتَتَلُوْا وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَا یُرِیْدُ، ﴾ (البقرۃ: ۲۵۳)
’’اور اگر اللہ چاہتا تو ان سے پچھلے لوگ اپنے پاس کھلی نشانیاں آنے کے بعد آپس میں نہ لڑتے لیکن انہوں نے اختلاف کیا، تو ان میں سے بعض تو ایمان لے آئے اور بعض کافر ہی رہے اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ باہم جنگ وقتال نہ کرتے، لیکن اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔‘‘
انسان کو چاہیے کہ وہ ان امور کے بارے میں، جو موجب تشویش ہوں اور ان کے ذریعہ تقدیر کے ساتھ شریعت کی مخالفت کا احتمال ہو نہ تو خود اپنے دل میں کچھ سوچے اور نہ کسی کے ساتھ اس بارے میں بحث وتکرار کرے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہ انداز نہ تھا، حالانکہ وہ حقائق کو معلوم کرنے کے لوگوں میں سب سے زیادہ حریص تھے حالانکہ وہ تشنگی کو تسکین بخشنے اور غم و فکر کو دور کرنے والے چشمے سے سب سے