کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 117
والے اسباب کو ترک کر دینا بھی اس کی طرف سے ایسی ہی کوتاہی ہے جو مستحق ملامت ہے؟
یہ مثال کہ اللہ تعالیٰ نے جب کسی بندے کی تقدیر میں لکھ دیا ہو کہ وہ مسجد بنائے گا، تو وہ یہ مسجد تو ضرور بنائے گا لیکن اس کے بنانے کی کیفیت کے بارے میں اختیار اس کی عقل کو دے دیا گیا ہے، ہمارے خیال میں یہ مثال سرے سے درست ہی نہیں۔ کیونکہ اس مثال سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسجد بنانے کی کیفیت کا مستقل اختیار میں عقل کوپوراپورا دخل حاصل ہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں اسی کے ساتھ مسجد بنانے کی مستقل سوچ کا تعلق تقدیر سے ہے جہاں تک عقل کے عمل دخل کی بنات ہے توعقل کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مسجد بنانے کی اصل سوچ میں بھی بندے کے اختیار کا عمل دخل ہے کیونکہ اسے اس کام پر مجبور نہیں کیا گیا، جس طرح کہ اسے اپنے خاص گھر کے بنانے یا اس میں ترمیم کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس سوچ کو بھی تو اللہ تعالیٰ ہی نے بندے کی تقدیر میں لکھا ہے الا یہ کہ بندے کو اس کا شعور نہیں ۔ کیونکہ جب تک کوئی چیز وقوع پذیر نہ ہو جائے بندے کو اس کے بارے میں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں اسے لکھ رکھا ہے کیونکہ تقدیر تو قدرت کا ایک ایسا مخفی راز ہے جس کے بارے میں علم اسی وقت یقینی ہوپاتا ہے جب اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے سے یا وقوع حسی کی صورت میں اس کے بارے میں مطلع فرما دے۔ اسی طرح کسی چیز کو بنانے کی کیفیت بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں لکھی ہوتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء کی تقدیر اجمالی طور پر بھی لکھی ہے اور تفصیلی طور پر بھی اور یہ ممکن ہی نہیں کہ بندہ کسی ایسی چیز کو اختیار کرے جو اللہ تعالیٰ کے ارادہ تقدیر کے خلاف ہو، بلکہ بات یہ ہے کہ بندہ جب کسی چیز کو اختیار کرتا اور اسے سرانجام دیتا ہے تو پھر اسے یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے مطابق ہے، چنانچہ بندہ ان حسی اور ظاہری اسباب کے مطابق مختار ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کے وقوع کے اسباب کے طور پر مقدر فرما رکھا ہے اور بندہ جب اس فعل کو سرانجام دیتا ہے تو اسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کس نے اسے اس کام پر مجبور کیا ہے، لیکن جب وہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ اسباب کے مطابق اس فعل کو سرانجام دے ڈالتا ہے تو ہمیں یقینی طور پر یہ بات معلوم ہوجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے اجمال اور تفصیل دونوں میں سے دونوں پہلوؤںکو اس کے مقدر میں لکھ رکھاہے۔
انسان کے گناہ کے بارے میں تم نے جو یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جس گناہ کو اس کے مقدر میں لکھ رکھا ہے وہ یقینی طور پر اسے کرے گا، لیکن اس کے کرنے کی کیفیت اور اس کے لیے سعی وکاوش کو اس کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے، تو اس مثال کے بارے میں بھی ہم وہی کہیں گے جو ہم نے مسجد بنانے کی مثال کے بارے میں کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فعل معصیت کو اس کے مقدر میں لکھ دینا اس کے اختیار کے منافی نہیں، کیونکہ اس فعل کو سرانجام دیتے وقت اسے یہ معلوم نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں کیا لکھ رکھا ہے؟ لہٰذا بندے جب اپنے اختیار سے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے درانحالیکہ اسے اس بات کا شعور بھی نہیں ہوتا کہ کوئی اسے اس پر مجبور کر رہا ہے، لیکن جب وہ اس فعل کا ارتکاب کرلیتاہے اور اسے سرانجام دے ڈالتا ہے تو اس وقت ہمیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ اس فعل کو اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں لکھ رکھا تھا، اس طرح گناہ کے کام کا ارتکاب کرنا اور اس کے لیے سعی وکاوش کرنا بھی بندے کے اختیار میں ہے اور یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ تقدیر کے مطابق ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی نے تمام اشیاء کو اجمال و تفصیل کے ساتھ مقدر فرما رکھا ہے۔ اسی نے ان اشیاء تک پہنچانے والے تمام اسباب کو بھی مقدر فرما یاہے۔ اس کے افعال میں سے کوئی چیز بھی ان اسباب سے