کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 116
کام کسی بندے کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے، تو وہ یقینی طور پر اسے کرے گا لیکن اس کے کرنے کی کیفیت کو اس کی عقل پر موقوف چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس رائے کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کی تقدیر میں جس اچھے یا برے عمل کا کرنا لکھ دیا گیا ہے، اس کی کیفیت کے بارے میں اسے اختیار دے دیا گیا ہے، تو کیا یہ بات صحیح ہے؟
جواب :تقدیر کا یہ مسئلہ زمانہ قدیم ہی سے انسانوں کے مابین ایک نزاعی مسئلہ چلا آرہا ہے اس میں لوگ تین قسموں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ ان میں سے دو قسم کے لوگ تو افراط و تفریط میں مبتلا ہیں اور ایک گروہ اعتدال پر قائم ہے۔
پہلی قسم: ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے عموم کو دیکھا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے بندے کے اختیار سے آنکھیں بند کر لیں ہیں اس بنیادپر ان کا کہنا ہے کہ انسان اپنے افعال کے سرانجام دینے کے لیے مجبور ہے اور اسے قطعاً کوئی اختیار حاصل نہیں، لہٰذا انسان کا تیز آندھی وغیرہ کی وجہ سے چھت سے گرنا بالکل اسی طرح ہے جیسے اپنے اختیار سے وہ سیڑھی سے اترتا ہے۔
دوسری قسم: ان لوگوں کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بندے کو اپنے افعال کے کرنے یا نہ کرنے میں مکمل اختیار حاصل ہے۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ہے اس بناء پر وہ یہ کہتے ہیں کہ بندہ اپنے افعال کو سرانجام دینے میں خود مختار ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا اس سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔
راہ اعتدال پر قائم لوگوں نے دونوں اسباب کی بنظربصارت چھان بین کی، اسی بناپر انہوں نے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے عموم کو بھی دیکھا اور بندے کے اختیار پر نظر دوڑائی اور کہا کہ بندے کا فعل اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور بندے کے اختیار سے وجود میں آتا ہے۔ لہٰذا انسان کے چھت سے تیز آندھی وغیرہ کی وجہ سے گرنے اور اپنے اختیار سے سیڑھی سے اترنے میں نمایاں فرق معروف اور نمایاں ہے۔ انسان کا پہلا فعل اس کے اپنے اختیار کے بغیر ہے، جبکہ اس کا دوسرا فعل اس کے اپنے اختیار سے ہے اور یہ دونوں فعل اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مملکت میں کوئی ایسے کام کی انجام دہی کا وجود نہیں جسے وہ نہ چاہے، لیکن بندہ اسی فعل کا مکلف ہے جو اس کے اختیار سے واقع ہو ، لہٰذا جن اوامر یا نواہی کا اسے مکلف قرار دیا گیا ہے وہ یہ کہتے ہوئے ان کی مخالفت نہیں کر سکتا کہ میری تقدیر میں یہی لکھا ہوا تھا کیونکہ احکام الٰہی کی مخالفت کا اقدام تو وہ اس وقت کرسکتا ہے جب کہ اسے یہ معلوم ہی نہ ہوکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تقدیر میں کیا لکھا ہے اور احکام الٰہی کی مخالفت کے سلسلے میں اس کا یہ اختیاری اقدام ہی اس کی دنیوی یا اخروی سزا کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے اگر کوئی جابر اسے مخالفت پر مجبور کرے تو اس پر حکم مخالفت ثابت نہیں ہوتا اور عذر کے ثابت ہونے کی وجہ سے اس صورت میں اسے سزا بھی نہیں دی جاتی۔
انسان کو جب یہ معلوم ہے کہ آگ سے بھاگ کر ایسی جگہ چلے جانے کا تعلق جہاں وہ اس سے محفوظ رہے اس کے اختیار سے ہے، اسی طرح خوب صورت، کشادہ اور پاکیزہ مکان میں سکونت اختیار کرنا بھی اس کے اپنے اختیار کے بموجب ہے، حالانکہ آگ سے بھاگنا اور اچھے مکان میں سکونت اختیار کرنا، دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سے واقع ہوتے ہیں آگ کی زد میں آئے ہوئے شخص کا اپنی جگہ برقرار رہنا تاکہ آگ اسے اپنی لپیٹ میں لے لے اور بندے کا اچھے مکان میں رہائش اختیار کرنے میں دیر کر دنے کو بندے کی خود اپنی طرف سے کوتاہی اور ایسے موقع کو ضائع کر دینا شمار کیا جائے گا جس پر وہ ملامت کا مستحق قراردیا جائے گا، جب یہ بات واضح ہے تو اس بات سے ایسا شخص کیوں بے بہرہ ہے کہ آتش جہنم سے نجات دینے والے اور دخول جنت کو واجب قرار دینے