کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 115
بات کا شعور ہی نہیں ہوتا۔ بعض لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں بھی اس بات کا شعور نہیں ہوتا۔ افسوس کہ ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ توحید اور عقیدے کے بارے میں صرف عوام ہی کوتاہی میں مبتلا نہیں ہیں بلکہ بعض طالب علم بھی اس مسئلے میں کوتاہی کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے نظرآتے ہیں، حالانکہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے ہوبہو عمل کے مانند اس کا معاملہ بھی ہے، جیسے شریعت نے عقیدے کے لیے محافظ و پناہ گاہ قراردی ہے، اس کے بغیر محض عقیدے پر زور دینا بھی غلط ہے (اسی طرح صرف عمل پر زور دینا بھی درست نہیں ) ہم ریڈیو سے سنتے اور اخبارات میں یہ پڑھتے رہتے ہیں کہ دین صرف اور صرف محض عقیدے ہی کا نام ہے، اس طرح کی عبارتیں اکثر میڈیا میں سننے میں آتی رہتی ہیں۔ حقیقت میں اس طرح کی باتوں سے ڈر ہے کہ کہیں اس دلیل کے ساتھ کہ عقیدہ تو درست ہے، بعض محرمات کو حلال قرار دئیے جانے کا دروازہ نہ کھل جائے۔ بلکہ ان دو باتوں کو ہمہ وقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے تاکہ ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کا صحیح جواب دیا جا سکے۔
اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کے لیے علم توحید وعقیدہ کو پڑھنا واجب ہے تاکہ اسے اپنے الٰہ ومعبود جَلَّ وَعَلا کے بارے میں بصیرت حاصل ہو جائے، اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کے بارے میں اسے آگاہی حاصل ہو، اس کے کونی اور شرعی احکام کے بارے میں اسے فہم وادراک تک رسائی حاصل ہو جائے اور اس کی حکمت اور اس کی شرع وخلق کے اسرار پنہاںکی اس پر گتھیاں سلجھتی چلی جائیں، تاکہ نہ خود گمراہ ہو اور نہ کسی دوسرے کو گمراہ کر سکے۔ علم توحید کا، جس ذات پاک سے تعلق ہے وہ اس تعلق کی وجہ سے تمام علوم سے اشرف وافضل علم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے اسے ’’الفقہ الاکبر‘‘ کے نام سے موسوم قرار دیا ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّہْہُ فِی الدِّینِ)) (صحیح البخاری، العلم، باب من یرد اللّٰه بہ خیرا، ح:۷۱ وصحیح مسلم، الزکاۃ، باب النہی عن المسالۃ، ح:۱۰۳۷۔)
’’جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے۔‘‘
علم دین میں داخل ہونے کاصدردروازہ توحید و عقیدے کا علم ہے۔ آدمی کے لیے یہ بھی واجب ہے کہ وہ اس بات کی کنہ تک پہونچنے کی کوشش کرے کہ وہ اس علم کو کس طرح حاصل کر رہا ہے؟ اور کس مصدر وماخذ سے اسے لے رہاہے؟ سب سے پہلے بندہ اس علم کو حاصل کرے جو شکوک وشبہات سے پاک صاف ہو اس کے بعد اس علم پروا رد کیے جانے والے شبہات وبدعات کی طرف منتقل ہو،تا کہ ان کی تردید کر سکے اور انہیں بیان کر سکے اور اس کا مصدر وماخذ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو، پھر کلام صحابہ اور تابعین و تبع تابعین بالترتیب ان علماء کے اقوال ہونے اس کے پیش نظرہونے چاہئیں، جو علم وامانت کے اعتبار سے قابل اعتماد ہیں، خصوصاً شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور آپ کے شاگرد رشید امام ابن قیمرحمہما اللہ ان دونوں پر،پھر تمام مسلمانوں پر اور امت مسلمہ کے تمام اماموں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و رضوان کی برکھا برسے۔
مسئلہ تقدیر کے بارے میں راہ اعتدال
سوال ۶۰: امید ہے آپ مسئلہ تقدیر پر روشنی ڈالیں گے، کیا یہ بات درست ہے کہ اصل فعل تو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے اور کیفیت کے بارے میں انسان کو اختیار دے دیا گیا ہے؟ اس کی مثال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اگر کسی بندے کی تقدیر میں یہ لکھ دیا ہے کہ وہ مسجد بنائے گا تو وہ یقینی طور پر ضرور مسجد بنائے گا لیکن مسجد بنانے کی کیفیت کا اختیار اس کی عقل پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر گناہ کا کوئی