کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 114
’’اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کیا کرو، میں نے جہنم میں تم کواکثریت میں دیکھاہے۔‘‘
سائل نے جس اشکال کا ذکر کیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھی عورتوں نے یہی اشکال پیش کرتے ہوئے عرض کیا تھا: یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ تو آپ نے جواب میں فرمایا تھا:
((تُکْثِرْنَ اللَّعْنَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیرَ)) (صحیح البخاری، الحیض، باب ترک الحائض الصوم، ح:۳۰۴، وصحیح مسلم، الایمان، باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات… ح:۷۹۔)
’’تم کثرت سے لعنت کرتی ہو اور شوہر کی نافرمانی کرتی ہو یا شوہر کی ناشکری ہوتی ہو۔‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی اکثریت کے جہنم میں جانے کے اسباب بیان فرما دیے ہیں وہ یہ کہ عورتیںکثرت سے سب وشتم، گالی گلوچ اور لعن طعن کرتی ہیں اور اپنے شوہر کی نافرمانی کرتی ہیں، پس ان اسباب کی وجہ سے ان کی اکثریت جہنم میں جائے گی۔
عقیدے کا علم اور اس میں پختگی حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے
سوال ۵۹: جو شخص عقیدے کا خصوصاً مسئلہ تقدیر کا اس لیے مطالعہ نہیں کرنا چاہتا کہ کہیں وہ پھسل نہ جائے تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب :یہ مسئلہ بھی ان اہم مسائل کی طرح ہے جن کی انسان کو دین ودنیا میں ضرورت پیش آتی ہے، اس لئے اس میں بھی گہرے تدبر سے کام لینا چاہیے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرنی چاہیے تاکہ حقیقت حال واضح ہو جائے، لہٰذا ان اہم امور و مسائل کے بارے میں انسان کو شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں وہ مسائل جن کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے دین میں کوئی خلل نہ آئے اور ان کا معلوم ہونا دینی انحراف کا سبب بن جائے تو ان کی طرف توجہ نہ دینے اور ان سے اہم مسائل پر غور کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن مسئلہ تقدیر دراصل ان اہم مسائل میں سے ہے جنہیں مکمل طور پر سمجھنا بندے کے لیے واجب ہے تاکہ اسے یقین حاصل ہو جائے۔ حقیقت میں اس مسئلے میں بحمداللہ کوئی اشکال بھی نہیں ہے۔ بعض لوگوں کو عقیدے کے اسباب جو مشکل معلوم ہوتے ہیں تو نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے، وہ اس لیے کہ ایسے لوگ(کَیْفَ) ’’کیسے‘‘ کے پہلو کو (لَمْ) ’’کیوں‘‘ کے پہلو پر ترجیح دیتے ہیں۔ انسان سے اپنے عمل کے بارے میں دو حروف استفہام (لَمْ) اور (کَیْفَ) ہی کے ساتھ سوال کیا جائے گا، یعنی اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ تو نے یہ عمل کیوں کیا؟ یہ سوال اخلاص کے بارے میں ہے، اسی طرح اس سے یہ بھی پوچھا جائے گا کہ تو نے یہ عمل کیسے کیا؟ یہ سوال اتباع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے۔ آج کل اکثر لوگ (کَیْفَ) کے جواب کی تحقیق میں مشغول ہیں اور وہ (لَمْ) کے جواب کی تحقیق سے غافل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اخلاص کی جانب زیادہ توجہ مبذول نہیں کرتے جب کہ اتباع کے حوالہ سے وہ دقیق امور کی طرف زیادہ توجہ دینے کے خواہش مند ہوتے ہیں، لیکن درحقیقت ایسے لوگ اس بارے میں اہم ترین پہلو، یعنی عقیدہ واخلاص اور توحید کے پہلو سے غافل ہیں۔ اس لیے آپ دیکھیں گے کہ بعض لوگ دنیا کے مسائل میں سے تو بہت چھوٹے جھوٹے مسئلے کے بارے میں بھی پوچھیں گے اس حال میں کہ ان کا دل دنیا ہی کے ساتھ حد درجہ وابستہ ہوگا اور وہ خرید و فروخت، سواری، رہائش اور لباس وغیرہ کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ سے حد درجہ غافل ہوں گے اور بعض لوگ تو اس حد تک پہنچ جاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے پجاری ہیں اور انہیں اس