کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 112
دوسری قسم: شفاعت باطلہ ہے جو کسی کے کچھ کام نہ آئے گی۔ اس سے مراد مشرکین کی مزعومہ شفاعت ہے وہ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے معبود اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی شفاعت کریں گے۔ یہ وہ شفاعت ہے جو ان کے کچھ بھی کام نہ آئے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَمَا تَنْفَعُہُمْ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ، ﴾ (المدثر: ۴۸)
’’تو (اس حال میں) سفارش کرنے والوں کی سفارش ان کے حق میں کچھ فائدہ نہ دے گی۔‘‘
کیونکہ اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے شرک سے خوش نہیں ہے اور نہ یہ ممکن ہے کہ وہ مشرکین کے لیے شفاعت کی کسی کو اجازت دے، کیونکہ وہ تو اپنے پسندیدہ بندوں کے لیے شفاعت کی اجازت عطا فرمائے گا اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور فساد کو پسند ہی نہیں فرماتا، لہٰذا مشرکین کا اپنے معبودوں سے یہ تعلق قائم کرنا کہ:
﴿ہٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (یونس: ۱۸)
’’یہ اللہ کے پاس ہماری سفارش کرنے والے ہیں۔‘‘
یہ ایک باطل اور غیر نفع بخش تعلق ہے۔ یہ تعلق انہیں اللہ تعالیٰ سے دورسے دور تک کرتا چلا جاتا ہے کیونکہ مشرکین بتوں کی عبادت کے لیے باطل وسیلے کے ذریعے سے اپنے بتوں سے شفاعت کی امید رکھتے ہیں، اور یہ ان کی بے وقوفی اور حماقت ہے کہ تقرب الٰہی کے حصول کے لیے وہ ایک ایسا وسیلہ اختیار کرتے ہیں جو انہیں اللہ تعالیٰ سے مزید دور کر تا چلا جاتا ہے۔
بچپن میں فوت ہونے والوں کا انجام
سوال ۵۶: مومنوں اور مشرکوں کے فوت ہو جانے والے چھوٹے بچوں کا کیا انجام ہوگا؟
جواب :مومنوں کے چھوٹے بچے جنت میں جائیں گے کیونکہ وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا اَلَتْنٰہُمْ مِّنْ عَمَلِہِمْ مِّنْ شَیْئٍ کُلُّ امْرِیٍٔ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ، ﴾ (الطور: ۲۱)
’’اور جو کچھ لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی (راہ) ایمان میں ان کے پیچھے چلی، ہم ان کی اولاد کو بھی (جنت میں) ان کے درجے تک پہنچا دیں گے اور ان کے اعمال میں سے کچھ کم نہ کریں گے۔ ہر شخص اپنے اعمال کے عوض، جو اس نے کمائے ہیں، گروی ہے۔‘‘
جہاں تک مومنوں کے سوا دیگر لوگوں کے بچوں کا تعلق ہے، یعنی ان بچوں کا جو غیر مسلم والدین سے پیدا ہوئے ہوں، تو ان کے بارے میں سب سے زیادہ صحیح قول یہ ہے جس کی بنیادپر ہم تنا کہہ سکتے ہیں: ’’ ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ انہیں کس طرح کے عمل کرنے تھے۔‘‘ دنیا کے احکام کے اعتبار سے تو وہ اپنے باپوں ہی کی طرح ہیں اور آخرت کے احکام کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ انہیں کس طرح کے اعمال کرنے تھے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا ہے۔[1] اس بنیادپرہم ان کے بارے میں یہ کہیں گے کہ ان کے انجام کو اللہ ہی جانتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے آخرت کے معاملے کا ہم سے کوئی زیادہ تعلق نہیں، البتہ دنیا کے احکام کے
[1] صحیح البخاری ، الجنائز ، باب ما قیل فی الاولاد المشرکین، حدیث: ۱۳۸۴۔