کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 111
﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ﴾ (البقرۃ: ۲۵۵)
’’کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر (کسی کی) سفارش کر سکے؟‘‘
﴿یَوْمَئِذٍ لَّا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوْلًا﴾ (طٰہٰ:۱۰۹)
’’اس روز (کسی کی) سفارش کچھ فائدہ نہ دے گی مگر اس شخص کی جسے اللہ اجازت دے گا اور اس کی بات کو پسند فرمائے گا۔‘‘
﴿وَ لَا یَشْفَعُوْنَ اِلَّا لِمَنِ ارْتَضٰی﴾ (الانبیاء: ۲۸)
’’اور وہ (اس کے پاس کسی کی) سفارش نہیں کر سکتے مگر اس شخص کی جس سے اللہ خوش ہو۔‘‘
بہرحال شفاعت کے لیے ان تین شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور ہاں علمائے کرام رحمہم اللہ نے یہاں پر یہ بھی ذکر فرمایا ہے کہ قرآن وحدیث سے ثابت شدہ شفاعت کی درج ذیل دو قسمیں ہیں:
۱۔ شفاعت عامہ: اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں میں سے جن کو چاہے گا اور جن کے لیے چاہے گاشفاعت کی اجازت عطا فرما ئے گا۔ یہ شفاعت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، دیگر انبیائے کرام، صدیقین، شہداء اور صالحین کے لیے ثابت ہے یہ لوگ جہنم میں جانے والے مومن گناہ گاروں کے لیے شفاعت کریں گے تاکہ انہیں جہنم سے نکال دیا جائے۔
۲۔ شفاعت خاصہ: اس سے مراد وہ شفاعت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہوگی۔ اور قیامت کے دن آپ کی طرف سے جو شفاعت ہوگی وہ شفاعت عظمیٰ ہے اور یہ اس وقت ہوگی جب لوگ ناقابل برداشت غم اور تکلیف سے دوچارہوں گے اس ہولناکی کے عالم میں وہ کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کی شفاعت کرے تاکہ انہیں حشر کے دن کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے نجات مل جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ حضرت آدم، پھر نوح، پھر ابراہیم، پھر موسیٰ اور پھر عیسیٰR کے پاس جائیں گے، مگر یہ تمام انبیائے کرام شفاعت سے انکار فرما دیں گے حتیٰ کہ یہ سب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر شفاعت کے لیے عرض کریں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے پاس شفاعت فرمائیں گے کہ وہ اپنے بندوں کو اس دن کی حشر سامانیوں سے نجات عطا فرما دے۔ تب اللہ تعالیٰ آپ کی دعا اور آپ کی شفاعت کو شرف قبولیت سے سرفراز فرما ئے گا بلاشبہ یہی وہ مقام محمود ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے آپ سے درج ذیل آیت کریمہ میں وعدہ فرمایا ہے:
﴿وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَہَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا، ﴾ (الاسراء: ۷۹)
’’اور بعض حصہ شب میں بھی آپ اس (قرآن کی تلاوت) کے ساتھ تہجد کی نماز پڑھا کریں یہ (شب خیزی اورآہ وسحر گاہی) تمہارے لیے زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے، قریب ہے کہ اللہ آپ کو مقام محمود میں کھڑا کرے گا۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو شفاعت خاصہ حاصل ہوگی، اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ اہل جنت کی جنت میں داخل ہونے کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ اہل جنت جب پل صراط کو عبور کریں گے تو انہیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک پل پر کھڑا کر دیا جائے گا اس موقعہ سے ان سب کے دلوں کو ایک دوسرے کے بارے میں منفی جذبات سے بالکل پاک صاف کر دیا جائے گا، پھر انہیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت سے جنت کے دروازوں کو کھولا جائے گا۔