کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 108
(حاضرین) نے کہا کہ ہم آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا:قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ پکڑو ۔ انہوں نے پھر کہا کہ ہم قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن میت کے بارے میں فرمایا:
((یُفْسَحُ لَہُ فِی قَبْرِہِ مد بصرہ)) (صحیح البخاری، الجنائز باب ماجاء فی عذاب القبر، ح:۱۳۷۴، وصحیح مسلم، الجنۃ، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار… ح:۲۸۷۰۔)
’’اس کی قبر کو تاحد نظرکشادہ کر دیا جاتا ہے۔‘‘
علاوہ ازیں عذاب قبر کے بارے میں اور بھی بہت سے نصوص واردہوئے ہیں کہ مذکورہ اعتقاد کے ساتھ محض قولی وہم کی بنیادپر ان نصوص کی مخالفت کرنا جائز نہیں کہ بلکہ واجب یہ ہے کہ ان نصوص کی تصدیق کی جائے اور انہیں صحیح تسلیم کیا جائے۔
٭ دراصل عذاب قبر کا تعلق روح سے ہے، یہ بدن پر محسوس ہونے والا معاملہ نہیں ہے۔ اگر یہ بدن پر محسوس ہونے والا معاملہ ہوتا تو یہ ایمان بالغیب میں سے نہ ہوتا اور نہ اس پر ایمان لانے کا کوئی فائدہ ہوتا لیکن یہ تو امور غیب میں سے ہے اور پھر برزخ کے حالات کو احوال دنیا پر قیاس نہیں کیا جاسکتا۔
٭ قبر کے عذاب اور اس کی نعمتوں کو اور قبر کی کشادگی اور تنگی کو قبر میں مدفون شخص(میت) ہی محسوس کر سکتا ہے، دوسرا نہیں۔ انسان بسا اوقات خواب دیکھتا ہے، جب کہ وہ اپنے بستر پر سو رہا ہوتا ہے، کہ وہ کھڑا ہے یا جا رہا ہے یا آرہا ہے یا کسی کو مار رہا ہے یا کسی سے مار کھا رہا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ وہ کسی بہت تنگ اور خوفناک جگہ میں ہے یا وہ کسی بہت ہی کشادہ اور سر سبز وشاداب جگہ پر ہے مگر اس سوئے ہوئے انسان کے پاس جو شخص موجود ہوتاہے اسے اس طرح کی کوئی چیز نظر آتی ہے نہ محسوس ہوتی ہے۔
اس طرح کے تمام امور میں انسان کے لیے واجب یہ ہے کہ وہ کہے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا، ہم ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی تصدیق کرتے ہیں۔
سوال ۵۴: کیا گناہ گار مومن پر عذاب قبر میں تخفیف کر دی جاتی ہے؟
جواب :ہاں! مردمؤمن پر عذاب قبر میں تخفیف کا معاملہ کیا جاتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دو قبروں کے پاس سے گزرے تھے، تو اس موقعہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
((إِنَّہُمَا لَیُعَذَّبَانِ وَمَا یُعَذَّبَانِ فِی کَبِیر بلی انہ کبیرِ،ٍ أَمَّا أَحَدُہُمَا فَکَانَ لَا یَسْتبری أوقال لا یستترُ مِنَ الْبَوْلِ وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ یَمْشِی بِالنَّمِیمَۃِ ثُمَّ أَخَذَ جَرِیدَۃً رَطْبَۃً فَشَقَّہَا نِصْفَیْنِ فَغَرَزَ فِی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَۃ وقال(لعلہ یخفف عنھما مالم یبسا)ً (صحیح البخاری، الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول، ح:۱۳۷۸ وصحیح مسلم، الطہارۃ باب الدلیل علی نجاسۃ البول ووجوب الاستبراء، ح:۲۹۲۔)
’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور ان دونوں کوکسی بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا ہے، پھر فرمایا: کیوں نہیں، بلاشبہ یہ عظیم گناہ ہے ان میں ایک پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط نہیں برتتا تھا راوی کو شک ہے یا پیشاب کرتے وقت سترعورت کا خیال نہیں رکھتا تھا اور ان میں سے دوسرا شخص چغل خوری کرتا پھرتا تھاپھر آپ نے ایک تازہ شاخ پکڑی اور توڑ کر اس کے دو حصے کر دیے اور ان میں سے ہر ایک کو دونوں کی قبروں پر گاڑ دیا اور فرمایا: شاید ان سے اس وقت تک عذاب میں