کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 107
تَسْتَکْبِرُوْنَ، ﴾ (الانعام: ۹۳)
’’آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی اس لیے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں گھڑتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔‘‘
اَلْیَوْم کا ’’ال‘‘ عہد حضوری کے لیے ہے، اس سے مراد آج کا وہ دن ہے جو ان کی وفات کا دن ہے۔ مرادیہ ہے کہ آج تم کو ذلت کے عذاب کی سزا دی جائے گی، اس لیے کہ تم اللہ پر ناحق باتیں گڑھتے تھے اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔
اس سے معلوم ہوا کہ صریح سنت اور قرآن کے ظاہر نصوص اور مسلمانوں کے اجماع سے عذاب قبر ثابت ہے۔ قرآن مجید کا یہ ظاہر صریح ہی کی طرح ہے، کیونکہ مذکورہ بالا دونوں آیتوں سے عذاب قبر کی صراحت کے ساتھ وضاحت ہو رہی ہے۔
سوال ۵۲: جب میت کو دفن نہ کیا جائے اور اسے درندے کھا جائیں یا ہوائیں اڑا دیں تو کیا اسے بھی عذاب قبر سے سابقہ پڑے گا؟
جواب :جی ہاں! کیونکہ عذاب روح کو ہوتا ہے اور جسم تو تلف ہو کر فنا ہو جاتا ہے لیکن یہ ایک غیبی امر ہے، اس لئے میں پورے وثوق سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ جسم کو اس نوعیت کا عذاب نہیں ہوتا۔ ممکن ہے جسم کو اس صورت میں بھی عذاب ہوتا ہو، خواہ وہ فنا ہو جائے یا جل کرراکھ ہو جائے، کیونکہ انسان اخروی معاملات کو دنیوی حالات پر قیاس نہیں کر سکتا۔
سوال ۵۳: جو شخص عذاب قبر کا انکار کرے اور دلیل یہ دے کر اگر قبر کو کھول کر دیکھا جائے تو وہ تنگ ہوئی ہوتی ہے نہ کشادہ اور نہ اس میں کوئی اور تبدیلی واقع ہوئی ہوتی ہے، تو اسے ہم کیا جواب دیں؟
جواب :جو شخص عذاب قبر کا انکار کرے اور دلیل یہ دے کہ قبر کو کھول کر دیکھا جائے تو اس میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہوتی، اسے کئی طرح سے جواب دیا جا سکتا ہے، مثلاً:
٭ عذاب قبر شرعی دلائل سے ثابت ہے، اللہ تعالیٰ نے آل فرعون کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ، ﴾ (الغافر: ۴۶)
’’ یہ(وہ) آتش جہنم ہے جس پر صبح وشام انہیں پیش کیا جاتا ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔‘‘
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((فَلَوْلَا اَنْ لَا تَدَافَنُوا لَدَعَوْتُ اللّٰہَ اَنْ یُسْمِعَکُمْ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ الَّذِیْ اَسْمَعُ مِنْہُ، ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْہِہِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، قَالُوا نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَقَالَ: تَعَوَّذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَقَالُوا: نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ)) (صحیح مسلم، الجنۃ، باب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار، ح:۲۸۶۷۔)
’’ اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تم میتوں کو دفن نہیں کرو گے، تو میں اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا کہ وہ تمہیں بھی وہ عذاب قبر سنا دے جو میں سنتا ہوں، (راوی کا کہنا ہے )پھر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: آگ کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو،انہوں