کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 106
اگر منکرین بعث بعد الموت کے سامنے یہ دلائل بیان کر دیے جائیں اور پھر بھی وہ اپنے انکار پر اصرار کریں تو وہ جھگڑا لو، ضدی اور ہٹ دھرم ہیں اور یہ ظالم عنقریب جان لیں گے کہ وہ کون سی جگہ لوٹ کر جائیں گے۔‘‘
عذاب قبر اور اس کی حقیقت
سوال ۵۱: کیا عذاب قبر ثابت ہے؟
جواب :عذاب قبر قرآن وسنت کی واضح اور ظاہر نصوص اور مسلمانوں کے اجماع سے ثابت ہے اور یہی تینوں ادلہ شرعیہ ہیں۔ سنت سے اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
((تَعَوَّدُوْا بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ، تعوذواباللّٰه من عذاب القبر،تعوذواباللّٰه من عذاب القبرِ))( صحیح مسلم، الجنۃ باب عرض مقعد المیت من الجنۃ والنار… ح:۲۸۶۷۔)
’’تم عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو، یہ جملہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطورتاکید دہرایا۔‘‘
مسلمانوں کے اجماع سے دلیل: تمام مسلمان اپنی نماز میں یہ دعا کرتے ہیں: (اعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَمِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ) ’’میں اللہ تعالیٰ کی عذاب جہنم اور عذاب قبر سے پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ حتیٰ کہ عام مسلمان بھی جو نہ علماء میں سے ہیں اور نہ اہل اجماع میں سے وہ بھی اپنی نماز میں یہ دعا کرتے ہیں۔
جہاں تک قرآن مجید کے واضح نصوص کا معاملہ ہے تو جیسے کہ آل فرعون کے بارے میں حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ اَدْخِلُوْا آلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ، ﴾ (الغافر: ۴۶)
’’(وہ) آتش جہنم ہے جس پر صبح وشام انہیں پیش کیا جاتا ہے اور جس روز قیامت برپا ہوگی (حکم ہوگا کہ) فرعون والوں کو سخت عذاب میں داخل کرو۔‘‘
بے شک آتش جہنم کے سامنے انہیں اس لیے تو پیش نہیں کیا جاتا کہ وہ تفریح کریں اور خوشیاں منائیں یا تماش بینی کریں، بلکہ انہیں تو جہنم پر اس لیے پیش کیا جاتا ہے تاکہ انہیں آگ کا عذاب پہنچے اور وہ عذاب جہنم کا مزہ چکھیں۔ اسی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْہِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ﴾ (الانعام: ۹۳)
’’اور کاش تم ان ظالم (یعنی مشرک) لوگوں کوا س وقت دیکھو جب وہ موت کی سختیوں میں (مبتلا) ہوں گے اور فرشتے (ان کی طرف عذاب کے لیے) اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ نکالو اپنی جانیں۔‘‘
اللہ اکبر! نزع کے وقت وہ اپنی جانوں کے بارے میں بہت فکر مند ہوں گے اور اس بات کو قطعاً پسند نہیں کریں گے کہ ان کے جسموں سے ان کی جانیں نکلیں اور پھر ان سے کہا جائے گا:
﴿اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ