کتاب: فتاوی ارکان اسلام - صفحہ 105
نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے کی) ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑ دیتے ہیں اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ پھر جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
٭ حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جائے تاکہ ہر انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر انسانوں کو پیدا کرنا عبث اور بے فائدہ ہے، جس میں کوئی حکمت نہیں کیونکہ ایسی زندگی کے اعتبار سے تو انسانوں اور حیوانوں میں کوئی فرق ہی نہیں رہ جاتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ، فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ، ﴾ (المومنون: ۱۱۵۔ ۱۱۶)
’’کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ہم نے تم کو بے فائدہ پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹ کر نہیں آؤ گے؟ تو اللہ جو سچا بادشاہ ہے اس کی شان سب سے اونچی ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی عرش بزرگ کا مالک ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْہَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعٰی﴾ (طٰہٰ:۱۵)
’’قیامت یقینا آنے والی ہے، میں چاہتا ہوں کہ اس (کے وقت) کو پوشیدہ رکھوں تاکہ ہر شخص جو کوشش کرے اس کا بدلہ پائے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَا یَبْعَثُ اللّٰہُ مَنْ یَّمُوْتُ بَلٰی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا وَّ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ، لِیُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ وَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنَّہُمْ کَانُوْا کٰذِبِیْنَ، اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْئٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ، ﴾ (النحل: ۳۸۔۴۰)
’’اور یہ اللہ کی سخت قسمیں کھاتے ہیں کہ جو مر جاتا ہے اللہ اسے (قیامت کے دن قبر سے) نہیں اٹھائے گا، کیوں نہیں! یہ اس کے ذمے سچا وعدہ ہے جو اسے ضرور پورا کرنا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے، تاکہ جن باتوں میں یہ ا ختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کر دے اور اس لیے کہ کافر جان لیں کہ وہ جھوٹے تھے۔ جب ہم کسی چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے لیے ہمارا صرف یہی قول ہوتا ہے کہ ہم اس سے کہتے ہیں: ہو جا! تو وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ، ﴾ (التغابن: ۷)
’’جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ (دوبارہ) ہرگز نہیں اٹھائے جائیں گے (اے نبی!) کہہ دو کیوں نہیں، میرے پروردگار کی قسم! تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر جو کام تم کرتے رہے ہو وہ تمہیں بتائے جائیں گے اور یہ (بات) اللہ کے لیے نہایت آسان ہے۔‘‘