کتاب: فتاویٰ اسلامیہ (جلد دوم) - صفحہ 550
جیسا کہ کبار علماء کی کونسل کے ساتویں اجلاس میں جو طائف شہر میں شعبان 1395ھ کے نصف اول میں منعقد ہوا، یہ طے پایا تھا کہ آٹھویں اجلاس کے ایجنڈا میں نا گریز لوازم میں شفعہ کے مسائل کو شامل کر لیا جائے، چنانچہ اس مسئلہ پر کونسل کے آٹھویں اجلاس میں غور ہوا جو ریاض شہر میں ربیع الآخر کے نصف اول میں منعقد ہوا تھا، نیز اس اجلاس میں ناقابل تقسیم جائیداد میں شفعہ کے مسئلہ پر غور کیا گیا۔ اس تحقیقی مقالہ کو دیکھنے کے بعد جو بحوث علمیہ و افتاء کی مستقل کمیٹی کی طرف تیار کیا گیا اور اراکین کونسل کے باہمی تبادلہ افکار و آراء کے بعد کونسل نے کثرت رائے سے یہ طے کیا کہ ناگزیر لوازم مثلا کنواں، راستہ اور پانی کی گزرگاہ وغیرہ میں شرکت کی صورت میں شفعہ ثابت ہے، نیز جو ناقابل تقسیم جائیداد ہو مثلا چھوٹے گھر اور دوکانیں وغیرہ تو ان میں بھی شفعہ ثابت ہے کیونکہ دلائل کے عموم کا یہی تقاضا ہے۔ نیز شفعہ میں جو مصلحت یعنی مبیع یا حق مبیع میں شریک سے ضرر کو دور کرنا ہے تو اس کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اور شفعہ کی مشروعیت کے بارے میں جو شرعی نصوص ہیں ان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (الشَّرِيكُ شَفِيعٌ، وَالشُّفْعَةُ فِي كُلِّ شَيْءٍ) (جامع الترمذي‘ الاحكام‘ باب ما جاء ان الشريك شفيع‘ ح: 1371) ’’ شریک کو شفعہ کا حق حاصل ہے اور شفعہ کا حق ہر چیز میں ہے۔‘‘طحاوی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر چیز میں شفعہ کے ساتھ فیصلہ فرمایا ہے۔‘‘[1] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ طحاوی کی سند کے راویوں میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح امام احمد اور اصحاب سنن اربعہ رحمۃ اللہ علیھم نے اپنی اپنی سندوں کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَةِ جَارِهِ يُنْتَظَرُ بِهَا وَإِنْ كَانَ غَائِبًا، إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا) (سنن ابي داود‘ البيوع‘ باب في الشفعة‘ ح: 3518 ومسند احمد: 3/303) ’’پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حق دار ہے۔ وہ موجود نہ بھی ہو تو اس کا انتظار کرنا چاہیے بشرطیکہ دونوں کا راستہ ایک ہو۔‘‘ امام بخاری نے’’صحیح‘‘ میں اور امام ابو داود اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیھم نے اپنی سنن میں اپنی اپنی سندوں کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے: (قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإذَا وَقَعَتِ الحُدُودُ، وَصُرِفَت الطُّرُقُ، فَلا شُفْعَةَ) (صحيح البخاري‘ البيوع‘ باب الارض والدور والعروض...الخ‘ ح: 2214) ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز میں شفعہ کا فیصلہ فرمایا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو، اور جب حدود متعین ہو جائیں اور راستے الگ الگ بنا دئیے جائیں تو پھر شفعہ نہیں ہے۔‘‘