کتاب: فتاویٰ اسلامیہ (جلد دوم) - صفحہ 426
ومسند احمد:۲/۵۰۸ واللفظ لہ ) ’’جب میں تمہیں کوئی حکم دوں تو مقدور بھر اس کی اطاعت بجا لاؤ۔‘‘ جب کوئی انسان بچوں کی ولادت کے وقت فقیر ہو تو اس پر عقیقہ لازم نہیں ہے کیونکہ وہ عاجز ہے اور عجز کی صورت میں عبادات ساقط ہو جاتی ہیں۔ ۔۔۔شیخ ابن عثیمین۔۔۔ قبل از وقت گر جانے والے بچے کا عقیقہ سوال: قبل از وقت ساقط ہو جانے والا ایسا بچہ جس کے بارے میں یہ واضح ہو کہ وہ بچہ ہے کہ بچی، کیا اس کا عقیقہ کیا جائے؟ وہ بچہ جو اپنی ولادت کے ند دن بعد فوت ہو جائے اور اس کی زندگی میں اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو، کیا بعد از وفات عقیقہ کیا جائے؟ کیا بچے کی ولادت پر جب ایک یا دو ماہ یا نصف یا پورا سال گزر جائے یا وہ بڑا ہو جائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو تو کیا اس کا بھی عقیقہ کیا جائے؟ جواب: جمہور فقہاء کا قول ہے کہ عقیقہ سنت ہے کیونکہ سلمان بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَعَ الْغُلامِ عَقِيقَةٌ، فَأَهْرِيقُوا عَنْهُ دَمًا، وَأَمِيطُوا عَنْهُ الأَذَى) (صحيح البخاري‘ العقيقة‘ باب اماطة الاذي عن الصبي في العقيقة‘ ح: 5472 ومسند احمد: 4/18 وسنن ابي داود‘ ح: 2839 و جامع الترمذي‘ ح: 1515 وسنن النسائي‘ ح: 4219 سنن ابن ماجه‘ ح: 3164) ’’بچے کے ساتھ عقیقہ ہے لہذا اس کی طرف سے خون بہاؤ اور اس سے ایذاء کو دور کرو۔‘‘ اسی طرح حسن بن سمرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (كُلُّ غُلَامٍ مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ، تُذْبَحُ عَنْهُ يَوْمَ السَّابِعِ، وَيُحْلَقُ رَأْسُهُ وَيُسَمَّى) (سنن ابي داود‘ الضحايا‘ باب في العيقيقة‘ ح: 2838) ’’ہر بچہ اپنے عقیقہ کے ساتھ گروی ہے، اس (کی طرف) سے ساتویں دن ذبح کیا جائے، اس کا سر مونڈا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔‘‘ اسی طرح عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کے واسطے سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَنْسُكَ عَنْ وَلَدِهِ فَلْيَفْعَلْ، عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافَأَتَانِ، وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ) (سنن ابي داود‘ الضحايا‘ باب في العقيقة‘ ح: 2842 وسنن النسائي‘ ح: 4217 ومسند احمد: 2/182 واللفظ له) ’’جو شخص اپنے بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا چاہے تو وہ کرے۔ بچے کی طرف سے ایک جیسے دو بکرے اور بچی کی طرف سے ایک بکرا ذبح کرے۔‘‘ ساقط ہو جانے والے بچے کی طرف سے عقیقہ نہیں ہے خواہ یہ واضح ہو چکا ہو کہ وہ بچہ ہے یا بچی جب کہ وہ نفخ روح سے قبل ساقط ہو جائے کیونکہ اسے بچہ یا مولود نہیں کہتے۔ عقیقہ ولادت کے ساتویں دن کیا جائے۔ جب بچہ زندہ پیدا ہو لیکن وہ ساتویں دن سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی طرف سے بھی ساتویں دن عقیقہ کرنا مسنون
[1] ۔میت کی طرف سے نفل نماز کا اہتمام کرنا یا ایصال ثواب کی نیت سے قرآن مجید کی تلاوت کرنا قرآن و حدیث کی کسی واضح دلیل سے اس کا جواز نہیں ملتا جیسا کہ خود مفتی علیہ الرحمہ کی کلام سے یہ مترشح ہوتا ہے اور یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ سے منقول ہے تفصیل کے لیے دیکھئے ’’الاختیارات العلمیة ص: 54‘‘ واحکام الجنائز ص: 213 صرف میت کے لیے دعا کرنا ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جیسا کہ کتاب و سنت کے عام دلائل سے ثابت ہے اور یہی افضل ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے صرف تین چیزیں (ایصال ثواب کا باعث بنتی ہیں) (1) (زندگی میں کیا ہوا) صدقہ جاریہ (2) علم جس سے بعد میں فائدہ اٹھایا جائے۔ (3) یا نیک اولاد کی دعا، صحیح مسلم، حدیث: 4223