کتاب: فتاویٰ اسلامیہ (جلد دوم) - صفحہ 29
میں دلچسپی زیادہ ہو اور خود وقف کی اصلاح کے لیے بھی بہتر ہو تو پھر اس کی بیع یا کسی دوسری جگہ سے اس کا تبادلہ کرنا جائز ہے جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر پہنچی کہ کوفہ کے بیت المال میں نقب زنی کی واردات ہو گئی ہے تو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ ’’تمارین (جگہ) میں مسجد کو منتقل کر دو اور بیت المال کو مسجد کے قبلہ کی طرف بنا دو کیونکہ مسجد میں ہر وقت کوئی نہ کوئی نمازی موجود ہوتا ہے (اس طرح بیت المال محفوظ رہے گا۔)[1]
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں یہ فیصلہ فرمایا اور جب کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی تو گویا اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا اور جب وقف کو اپنی اصلی شکل و صورت میں باقری رکھنا مشکل ہو تو پھر اس کے بقاء کی صرف یہی صورت ہے اور پھر یہ بھی ضروری ہے کہ جواز کی حالت میں وقف کی بیع یا تبادلہ شرعی حاکم یا اس کے نائب کے ہاتھوں سے ہو تاکہ وقف کے سلسلہ میں احتیاط اور حفاظت کا پہلو پیش نظر رہے اور وقف ضائع نہ ہو۔ وصلي اللّٰه علي محمد وآله وصحبه وسلم۔
۔۔۔فتویٰ کمیٹی۔۔۔
حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد حلال نہیں
سوال: ایک عورت مسجد نبوی میں تھی کہ ماہواری کا خون شروع ہو گیا تو اس کے بعد وہ تھوڑا سا وقت مسجد میں رہی تا آنکہ اس کے اہل خانہ نماز سے فارغ ہو گئے اور پھر یہ ان کے ساتھ مسجد سے باہر چلی گئی، تو کیا یہ تھوڑا سا وقت مسجد میں رہنے کی وجہ سے یہ عورت گناہ گار ہو گی؟
جواب: اگر یہ عورت از خود تنہا مسجد سے باہر نہ نکل سکتی ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر یہ از خود باہر نکل سکتی ہو تو پھر اسے فورا مسجد سے باہر نکل جانا چاہیے کیونکہ حیض، نفاس اور جنابت والوں کے لیے مسجدوں میں بیٹھنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا۟) (النساء 4/43)
’’اور جنابت کی حالت میں بھی (مسجد میں جاؤ نہ نماز پڑھو) ہاں اگر (مسجد کے اندر سے) راہ چلتے گزر جانے والے ہو (تو یہ جائز ہے۔)‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
(فَإِنِّي لَا أُحِلُّ الْمَسْجِدَ لِحَائِضٍ وَلَا جُنُبٍ) (سنن ابي داود‘ الطهارة‘ باب في الجنب يدخل المسجد‘ ح:232)
’’میں حائضہ اور جنبی کے لیے مسجد کو حلال قرار نہیں دیتا۔‘‘
۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔
[1] ۔فتاوي ابن تيميه (31/216)