کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 88
جواب: زچگی کے بعدجوخون آ تا ہے، اسے شریعت کی اصطلاح میں نفاس کہاجاتا ہے۔ استقرارحمل کے بعد یہ حیض کاہی خون ہوتا ہے جورحم مادر کے اندر جمع ہوکر بچے کی خوراک اوراس کی حفاظت کے کام آتا ہے ۔بچے کی پیدائش کے بعد جمع شدہ خون جب خارج ہوتا ہے تواس کے ختم ہونے کے لئے کئی دن درکار ہوتے ہیں۔اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورتابعین عظام رحمہم اللہ کے نزدیک ولادت کے خون کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نفاس والی عورتیں چالیس دن بیٹھاکرتی تھیں۔‘‘ [ابوداؤد ،الطہارۃ:۳۱۲] اگرچالیس دن کے بعد بھی خون بند نہ ہوبلکہ جاری رہے تواکثر اہل علم کے نزدیک وہ خون استحاضہ ہے، جس میں عورت نماز کے لئے تازہ وضو کرتی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت ابی حبیش کواستحاضہ کاعارضہ تھا تورسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ہرنماز کے لئے وضو کرلیا کرو۔‘‘ [صحیح بخاری، الوضو: ۲۲۸] صورت مسئولہ میں اگرعورت کوچالیس دن کے بعد خون نفاس بندنہیں ہوا تواسے چاہیے کہ وہ غسل کرکے نماز شروع کر دے، البتہ اسے ہرنما زکے لئے تازہ وضو کرناہوگا ۔ایک وضو سے ایک نماز کے فرض اورسنتیں وغیرہ اداکی جاسکتی ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نفاس والی عورت سات دن تک انتظار کرے اگر پاک ہوجائے توٹھیک ورنہ چودہ دن انتظار کرے، پھراکیس دن زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک خون بند ہونے کاانتظار کرے اگر پھر بھی بند نہ ہوتوغسل کرکے نماز پڑھناشروع کردے۔ [بیہقی ،ص: ۳۱۴،ج۱] حضرت عمر اور انس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی طرح منقول ہے ۔واضح رہے کہ دوران نفاس جونما زیں فوت ہوجائیں انہیں قضا کے طورپر پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نفاس والی عورت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چالیس دن نماز نہیں پڑھاکرتی تھیں ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دنوں فوت ہونے والی نمازوں کے متعلق قضا کاحکم نہیں دیا۔ [بیہقی، ص: ۳۴۱،ج۱] سوال: ایک آدمی نے قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کئے پانی سے استنجانہیں کیا،اس کے بعد وضو کرکے جماعت کرا دی، کیاشرعاً ایساکرنادرست ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں ۔ جواب: واضح رہے کہ امامت کا معاملہ بہت نازک ہو تا ہے، امام کوچاہیے کہ وہ اپنے مقتدیوں کے سامنے قطعاًکوئی ایسا کام نہ کرے جس سے ان کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوسکتا ہو،چونکہ امام مقتدیوں کے لئے ایک نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے امام کے لئے بہترین اخلاق اورمثالی کردار کاحامل ہوناضروری ہے۔ بلاشبہ قضائے حاجت کے بعد صرف ڈھیلے استعمال کرنے سے طہارت مکمل ہوجاتی ہے اگرایسا کرنے کے بعد باوضو ہوکر نماز پڑھاتا ہے تواس کی نماز میں کوئی نقص نہیں ہے، جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ’’جب تم میں سے کوئی قضائے حاجت کے لئے جائے توطہار ت کے لئے تین پتھر ساتھ لے جائے، فراغت کے بعد انہیں استعمال کرناطہارت کے لئے کافی ہے۔‘‘ [ابو داؤد، کتاب الطہارۃ: ۴۰] تا ہم بہتر ہے کہ پانی سے استنجا کیاجائے کیونکہ پانی سے طہارت اورصفائی اچھی طرح ہو جاتی ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا