کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 75
کے لئے خلوص کے ساتھ کوشش کریں اوراس قسم کے تنازعات سے باہمی نفرت کی فضاپیدا نہ کریں۔ [ھذا ما عندی وااللّٰه اعلم بالصواب] سوال: ہم نے اپنی مسجد سے ملحقہ پلاٹ خرید کر اس میں بھرتی ڈلوائی ہے ،مقامی بچوں کی تعلیم کے لئے ہم وہاں تعمیر کرنا چاہتے ہیں، کیا عشروزکوٰۃ کی رقم سے تعمیر کی جاسکتی ہے، جبکہ ہمارے ہاں بیرونی طلبہ نہیں ہیں، نیز بتائیں کہ مسجد پر زکوٰۃ کی رقم کیوں نہیں لگائی جا سکتی؟ جواب: ذاتی ضروریات پرزکوٰۃ صرف کرنا درست نہیں ہے۔ زکوٰۃ کے مصارف قرآن کریم میں طے شدہ ہیں، مساجد اورمقامی مدارس کی تعمیر بھی ذاتی ضروریات میں شامل ہے، ان پرعشر یازکوٰۃ کا پیسہ نہیں خرچ کرنا چاہیے بلکہ ان کی تعمیر اہل محلہ اپنی ذاتی گرہ سے کریں ۔اگراہل محلہ خود زکوٰۃ یاعشر کے مستحق ہیں اوران کی گزراوقات بھی اسی قسم کے فنڈ سے ہوتی ہے توایسے حالات میں ان کی مساجد اورمقامی مدارس پر عشر اور زکوٰۃ کی رقم خرچ کی جاسکتی ہے۔ عام طور پر مدارس کا رخ غریب اور تنگ دست طلبہ کرتے ہیں، اس لئے مدارس کے لئے زکوٰۃ فنڈ وغیرہ استعمال کرنے کی گنجائش نکالی جاتی ہے، اگرمدارس میں امیر طبقہ سے تعلق رکھنے واے تما م طلبہ ہوں توان پر بھی زکوٰۃ کی رقم استعمال نہیں ہوسکتی ۔اگرمقامی حضرات اس قدر متمول ہیں کہ ان کا عشر اور زکوٰۃ وغیرہ جمع ہوتی ہیں توانہیں چاہیے کہ زکوٰۃ، عشر، صدقۂ فطر اورقربانی کی کھالیں غرباء اورمساکین کودیں اورمساجد وغیرہ کی تعمیر اپنی گرہ سے کریں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وقت بھی مساجد کی تعمیر اورمقامی ضروریات کے لئے زکوٰۃ ،عشر ،صدقہ فطر یاقربانی کی کھالوں کو استعمال نہیں فرمایا۔ حتی کہ اعلائے کلمۃ اﷲ کے لئے جہاد جیسی اہم ضرورت پربھی اس قومی فنڈکواستعمال نہیں فرمایا ۔آپ کے عہد مبارک میں غزوۂ تبوک کے موقع پرمتعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی گرہ سے جہاد فنڈ کومضبوط کیاہے ۔اس سلسلہ میں نصوص کے عمومات سے یہ مسئلہ کشید توکیاجاسکتا ہے لیکن اسوۂ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کوئی نظیر پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس تفصیلی جواب کے بعد اعتراض کنند گان کی حیرانی ختم ہو جانی چاہیے کہ سوال مسجد کی تعمیر پر زکوٰۃ خرچ کرنے کے بارے میں ہے اور جواب جہاد کے بارے میں دیا جارہا ہے، نیز یہ حضرات مطمئن رہیں کہ ہمارا جواب پیش کردہ سوال کے عین مطابق ہے اور ہمیں اپنے موقف پر پوری طرح شرح صدر ہے او ر ہمیں یہ موقف اختیار کرنے میں کوئی ناگزیر وجوہات درپیش نہیں ہیں۔ البتہ یہ حضرات متعدد ’’ناگزیر وجوہات‘‘ کا شکار ہیں جن کی فہرست بہت طویل ہے۔ مناسب وقت آنے پر ان کی تفصیل ہدیہ قارئین کی جائے گی۔ یہاں ہم ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ کے طور پر صرف ایک مثال بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی ایک تالیف ’’احکام صیام و مسائل عیدین و آداب قربانی‘‘ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’قربانی کے احکام ایک نظر میں‘‘ جسے میرے نام کے حوالہ سے مجلہ الدعوۃ مجریہ اپریل،۱۹۹۹میں شائع کیا گیا ہے۔ ا س میں لکھا کہ ’’قربانی کی کھال یا اس کی قیمت فقراء و مساکین، طالبان دین اور مجاہدین کو دینی چاہیے‘‘۔ میرے الفاظ میں درپیش بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر ’’طالبانِ دین اور مجاہدین‘‘ کا اضافہ کرکے ایک مجرمانہ خیانت کا ارتکاب کیا گیا، کیونکہ میں نے اپنی کتاب میں صرف یہ لکھا تھا کہ قربانی کی کھال یا اس کی قیمت فقراء و مساکین کو دینی چاہیے۔ [کتاب مذکور، ص: ۱۱۷] توجہ دلانے کے باوجود اس کے متعلق کسی قسم کی وضاحت یا معذرت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ [واﷲ اعلم ]