کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 59
گیری کرنا یا آپ کی ذات عالی صفات کے ساتھ کسی بھی پہلو سے استہزاء وتمسخر کرنا یا آپ کوگالی دینا اور آپ کوبرا بھلا کہنا الغرض آپ کی شخصیت پر کسی بھی پہلو سے اعتراض کرنا اس میں شامل ہے ۔لیکن اہل مغرب نے یہودی لابی اور امریکی استعمار کے اشارے پراسلام اوراہل اسلام کے خلاف مذموم تہذیبی جنگ شروع کررکھی ہے ۔اس سلسلہ میں انہوں نے تہذیب وشائستگی کی تمام حدود کو پامال کر دیا ہے۔ پہلے قرآن کریم کی بے حرمتی کرکے پوری امت مسلمہ کے جذبا ت کو مجروح کیااور اب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے مذموم خاکے اورکارٹون شائع کرکے شرمناک حرکت کرڈالی ہے۔ اس سے بڑھ کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکا ت کومجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ کاکارٹون بناکر آپ کی پگڑی یاٹوپی میں بم نصب کرکے دنیا کویہ باور کرایا جائے کہ نعوذباﷲ مسلمانوں کے اولین رہنما دہشت گردی اور تخریب کاری کے علمبردار ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ جرم معافی کے قابل نہیں کہ معذرت کر نے سے اس کی تلافی ہوجائے بلکہ ایسے لوگ قابل گردن زدنی ہیں ۔مسجد حرام کے امام وخطیب فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن السدیس حفظہ اﷲ نے اپنے ۱۰فروری کے خطبہ میں بجافرمایا ہے کہ توہین رسالت کے مجرمین کوقرار واقعی سزادی جائے، کیاآزادی اظہار کامطلب یہ ہے کہ اسلام اوراہل اسلام کی توہین وتضحیک کی جائے ،انہوں نے مطالبہ کیا کہ عالمی سطح پرایسے قوانین بنائے جائیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اوردیگر مقدسات اسلام کی توہین کوجرم قرار دیا جائے اوراس کاارتکاب کرنے والوں کوقرارواقعی سزا دی جائے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں توہین رسالت کاجرم معمولی نہیں ہے،ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’بلاشبہ جولوگ اﷲ اوراس کے رسول کواذیت دیتے ہیں ،ان پر دنیا وآخر ت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے لعنت اورقیامت کے دن ان کے لئے رسواکن عذاب مہیا کیاجائے گا ۔‘ ‘ [۳۳/الاحزاب :۵۹] غزوۂ تبوک کے سفر میں منافقین نے آپس میں اسلام اوراہل اسلام کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیا ،کبھی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ،رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کوبذریعہ وحی اس کی اطلاع مل جاتی ،جب آپ ان سے طلبی فرماتے توکہتے کہ ہم توصرف سفر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے ہنسی مذاق کررہے تھے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ دل بہلانے کے لئے صرف ایسی باتیں ہی رہ گئی ہیں جن میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کوملوث کیاجائے ،کسی اور چیز سے تمہاری دل لگی نہیں ہوتی، قرآنی آیات ملاحظہ کریں: ’’اور اگر آپ ان سے دریافت کریں (کہ کیاتم ایسی باتیں کرتے ہو) توکہیں گے ہم توصرف مذاق اوردل لگی کررہے تھے۔ کہہ دیجئے: کیا تمہاری ہنسی اوردل لگی اﷲ، اس کی آیات اور اس کے رسول کے ساتھ ہی ہوتی ہے؟ بہانے نہ بناؤ تم واقعی ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔‘‘ [۹/التوبہ :۶۵۔۶۶] اس نصِ صریح سے معلوم ہوا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اورشعائر اسلام کو اپنے مذاق کاموضو ع بنانا بہت خطر ناک عمل ہے۔ اس راستہ پر چل کر انسان براہ راست کفر تک پہنچ سکتا ہے۔ کتب حدیث میں متعدد ایسے واقعات مروی ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخی کے مرتکب کوفورًا جہنم واصل کردیا گیا اوراسے کیفر کردارتک پہنچانے والے سے کسی قسم کی باز پرس نہیں کی گئی، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کیاکرتی تھی ،اسے ایک شخص نے قتل کردیا تورسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خون کابدلہ ،قصاص یادیت کسی بھی صورت میں نہیں دلوایا ۔ [ابوداؤد،الحدود:۴۳۶۲]