کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 54
اﷲ تعالیٰ پراعتماداور حسن ظن رکھتے ہوئے ایسے اسباب کواختیار کیاجائے جنہیں اختیار کرنے کااﷲ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جیساکہ جب مشرکین نے اہل مدینہ پرچڑھائی کی تھی تورسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اوراہل مدینہ کی حفاظت کے لیے شہر کے اردگرد خندق کھودی تھی لیکن اسباب اختیار کرنے کی چند ایک اقسا م ہیں: ٭ ایسے اسباب اختیار کرنا جوبنیادی طور پر عقیدۂ توحید کے منافی ہیں، مثلاً: ہم دیکھتے ہیں کہ قبروں کے پجاری مصیبت کے وقت اہل قبور سے مدد مانگتے ہیں، ایسا کرنا شرک اکبر ہے، اور ایسے اسباب اختیار کرنے پراﷲ تعالیٰ نے سخت ناراضی کااظہار کیاہے اوراسے جہنم کی وعید سنائی ہے۔ ٭ سبب پر صرف اتناہی اعتماد کیاجائے کہ وہ صرف ایک سبب ہے، ایسے اسباب اختیار کرتے وقت بھی یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ یہ سبب بھی اﷲ کی طرف سے ہے۔ وہ چاہے تواسے باقی رکھے اگر چاہے توا س کی تا ثیر ختم کردے ،ایسے اسباب اختیار کرناعقیدۂ توحید یا توکل کے خلاف نہیں ہیں۔ بہر حا ل بیماری اورمصیبت کے وقت شرعی اسباب اختیار کرنے کے باوجود انسان کوچاہیے کہ وہ مکمل طور پر ان اسباب پرانحصار نہ کرے بلکہ انحصار صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات پر ہو کیونکہ اسباب وذرائع کااختیا رکرنارسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، جبکہ آپ کاحقیقی انحصار صرف اﷲ پر ہوتا تھا، ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پرچلتے ہوئے آپ کے اسوۂ مبارکہ کوعمل میں لانا چاہیے، اسباب سے قطع نظر کرکے ہاتھ پاؤں باند ھ کر بیٹھ جاناشریعت کے منافی ہے اوراسباب پر کلی انحصار بھی دینِ اسلام کے خلاف ہے۔ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اسباب اورذرائع اختیار کیے جائیں لیکن آخری بھروسہ اﷲ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات پرہوناچاہیے کہ وہی اسباب میں تاثیر پیدا کرنے پر قادرہے اگر چاہے توان اسباب سے تاثیر سلب کردے۔ [واﷲ اعلم ] سوال: میرے دل میں اﷲ تعالیٰ، اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کی کتاب کے متعلق بہت برُے برُے خیالات آتے ہیں، نماز وروزہ میں پابندی سے کرتی ہوں لیکن یہ برُے خیالات میرا پیچھا نہیں چھوڑتے، اس سلسلے میں بہت پریشان ہوں، ان سے نجات کے لیے کوئی نسخہ تحریر کریں ؟ جواب: شیطان کایہ ایک حربہ ہے کہ وہ برُے خیالات کے ذریعے اہل ایمان پرحملہ کرتاہے، قرآن پاک نے اس کے طریقۂ واردات سے ہمیں بایں الفاظ آگاہ کیاہے : ’’وہ جولوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتارہتاہے۔ ‘‘ [۱۱۴/الناس :۵] ان وساوس سے شیطان کامقصد یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کے عقیدے کوخراب کردے اورانہیں نفسیاتی اور فکری اضطراب میں مبتلا کر دے، یہ سلسلہ قیامت تک چلتارہے گا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کوبھی اس طرح کی باتوں کاسامنا کرنا پڑتاتھا،لیکن وہ ایسے خیالات کے مقابلہ میں استقامت اورعمل کے پہاڑ ثابت ہوئے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یارسول اﷲ! ہم اپنے دلوں میں کچھ ایسی باتیں پاتے ہیں کہ انہیں زبان پر لانابھی ہمارے لیے بہت گراں ہے۔ اس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ’’کیا تم اس چیز کو پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: ہاں، آپ نے فرمایا: ’’یہی توخالص اورصحیح ایمان ہے ۔‘‘ [صحیح مسلم، الایمان: ۱۳۲]