کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 53
1۔ذاتیہ : ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ ہمیشہ متصف رہتا ہے، جیسے صفتِ علو اور صفتِ عظمت وغیرہ۔ 2۔فعلیہ: فعلیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی مشیّت سے وابستہ ہیں، اگر چاہے توانہیں کرے اوراگرنہ چاہے تونہ کرے، جیسا کہ اِسْتِوَائٌ عَلَی الْعَرْشِ اور نَزُوْلٌ اِلٰی سَمَائِ الدُّنْیَا۔ آخری قسم کی صفات کواﷲ تعالیٰ کے لیے اس کے شایان شان ثابت کیا جائے، اس میں تمثیل یاتکییف کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ حدیث مذکورہ میں جوصفات ہیں وہ ثبوتیہ فعلیہ ہیں۔ جواﷲ تعالیٰ کی مشیئت سے متعلق ہیں ۔شیخ صالح عثیمین رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اورسلف صالحین اس قسم کی نصوص کوا ن کے حقیقی اورظاہری معنی پر ہی محمول کرتے ہیں۔ اوران صفات کواﷲ رب العزت کے شایان شان ثابت کرتے ہیں ان کے لیے کوئی تمثیل یاکیفیت کومتعین نہیں کرتے۔ اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کااپنے بندے کے قریب ہونے کوبیان کیاگیا ہے وہ اپنے بندے کے جب چاہے جس طرح چاہے قریب ہو سکتا ہے، باوجود اس کے وہ بلند وبالابھی ہے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا آسمان دنیا کی طرف نزول اور اپنے عرش پر مستوی ہوناثابت ہے۔ [القواعد المثلی، ص:۷۰] شیخ عبداﷲ غنیمان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کااپنے بندے پرجودوکرم بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے بندے پربہت جلد متوجہ ہوتاہے اوراس پراپنافضل و کرم کرنے میں جلدی کرتاہے باوجود یکہ اس کی عبادت اس کرم وفضل کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، وہ اپنے علاوہ ہرچیز سے بے پروا ہے اوراس کے علاوہ ہرچیز اس کی محتاج ہے ۔ [شرح کتاب التوحید، صحیح بخاری ،ص:۲۷۱ج۱] یہ دونوں بزرگ سرزمین عرب کے نامور علما سے ہیں اوران کی تمام زندگی درس وتدریس میں گزری ہے، مؤخر الذکر تو سعودی عرب میں ہمارے دوران تعلیم مضمون توحید کے استاد تھے ۔اﷲ تعالیٰ ان پر کروٹ کروٹ اپنی رحمت فرمائے ،اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے میں نے اس حدیث کی وضاحت میں ان کی تشریحات کو ذکر کردیاہے ۔ [واﷲاعلم ] سوال: ہم لوگ عام طور پراسباب اختیار کرنے کوتوکل کے منافی خیال کرتے ہیں ،کیا ایسا ذہن رکھنا صحیح ہے، اسباب اختیار کرنے کے متعلق شرعاً کیاحکم ہے؟ جواب: مصائب وآلام کے وقت ایک مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کوصرف اﷲ کے ساتھ وابستہ رکھے، جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ’’تمام امور اسی کی طرف لوٹا ئے جاتے ہیں، لہٰذاتم اس کی عباد ت کرو اور اسی پربھروسہ رکھو۔‘‘ [۱۱/ہود:۱۲۳] ’’اوراہل ایمان کو اﷲ تعالیٰ نے تلقین کی ہے کہ وہ اپنے ربّ پربھروسہ رکھیں ۔‘‘ [۳/آل عمران :۱۶۰] جو انسا ن مشکلات کے وقت اﷲ تعالیٰ پرکامل بھروسہ رکھتا ہے تواﷲ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوگا ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور جو شخص اﷲ تعالیٰ پربھروسہ رکھے گا تووہ اسے کافی ہوگا یقینااﷲ تعالیٰ اپنے کام کوپورا کرنے والا ہے، اﷲ تعالیٰ نے ہرچیز کاایک انداز مقرر فرمایا ہے ۔ ‘‘ [۶۵/الطلاق:۳]