کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 52
درازی عمر اوروسعت رزق کاوسیلہ ہے ،وغیرہ ۔ قرآن وحدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعی وسیلہ کی صرف تین صورتیں ایسی ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے جائز قرار دیا ہے، ان صورتوں میں اپنے گناہوں کی اﷲ سے معافی مانگتے وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ دینا مشروع نہیں ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ ہم براہِ راست اﷲ تعالیٰ سے دعا کریں اورطلب حاجات کریں ۔وسیلہ کی جائز اقسام حسب ذیل ہیں : ٭ اﷲ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ یاصفات کاوسیلہ دے کر دعا کرنا، مثلاً: یوں کہا جائے کہ اے اﷲ !تورحمن ورحیم ہے مجھ پر رحم فرما اور مجھے عافیت دے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اﷲ کے سب نام اچھے ہیں تو اس کے ناموں سے پکارو ۔‘‘ [۷/ الاعراف:۱۸۰] ٭ کسی نیک عمل کاوسیلہ دینا، مثلاً: اس طرح کہا جائے: اے اﷲ! میں تجھ پرایمان رکھتا ہوں، تیرے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتاہوں، ان نیک اعمال کے وسیلے سے میرے گناہ معاف فرمادے ۔ اصحابِ غار کاقصہ بھی اسی قبیل سے ہے جنہوں نے اپنے اعمال کاواسطہ دے کراﷲ تعالیٰ سے دعامانگی تووہ غار سے بحفاظت نکل گئے تھے۔ (متفق علیہ) ٭ نیک آدمی کی دعا کاوسیلہ: شریعت میں اس کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ کوئی مسلمان شدید تکلیف کے وقت کسی نیک آدمی سے دعا کامطالبہ کرے جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت قحط کے وقت ایک اعرابی نے بارش کے لیے دعا کی اپیل کی تھی ۔ [صحیح بخاری ] ان تین وسائل کے علاوہ جتنے وسیلے ہیں وہ ناجائز ہیں ،ان کاکتاب وسنت میں کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے اﷲ سے دعا کرتے وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کاواسطہ نہیں دینا چاہیے۔ [واﷲ اعلم] سوال: حدیث میں ہے کہ اگر میر ابندہ میری طرف ایک قدم آتا ہے تومیں دوقدم اس کی طرف آتاہوں ،اگر وہ میری طرف چل کر آتاہے تومیں اس کی طرف دوڑ کرآتا ہوں ۔صفات باری تعالیٰ کا حقیقی معنی مراد لینا ہی سلف صالحین کاعقیدہ اور طرز عمل ہے۔اس عقیدہ کی روشنی میں حدیث مذکورہ کاحقیقی معنی کس تناظر میں لیاجائے گا؟ جواب: اس حدیث کوامام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ بیان کیا ہے ۔حدیث میں اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’میں اپنے بندے سے اس کے گمان کے مطابق برتاؤ کرتا ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تومیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں، اگروہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تومیں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اورجب وہ مجھے کسی مجلس میں یاد کرتاہے تومیں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں، اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتاہے تومیں اس سے ایک ہاتھ قریب ہوجاتاہوں اوراگروہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتاہے تومیں اس سے دوہاتھ قریب ہو جاتا ہوں، اگر وہ میری طرف چل کرآتاہے تومیں اس کی طرف دوڑ کرآجاتا ہوں ۔‘‘ [صحیح بخاری، التوحید: ۷۴۰۵] یہ حدیث اﷲ تعالیٰ کی کئی ایک صفات پرمشتمل ہے اوراﷲ کی صفات دوطرح کی ہیں۔ ثبوتیہ اورسلبیہ صفات ثبوتیہ : سے مراد وہ صفات ہیں جواﷲ تعالیٰ نے رسولصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے لیے ثابت کی ہیں، جیسے علم اور قدرت وغیرہ۔ صفات سلبیہ : سے مراد وہ صفات ہیں جن کی اﷲ تعالیٰ نے خودرسولصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کی نفی کی ہے، جیسے نیند اورتھکاوٹ وغیرہ، پھر صفات ثبوتیہ کی دواقسام ہیں: