کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 498
کے باوجود درگزرکرتے ہوئے خیر وبرکت کے جذبے سے ’’اربعین‘‘کوتالیف کیاہے ۔ان میں کچھ اصول دین سے متعلق ہیں اور متعدد اربعین کا تعلق فروغ اسلام سے ہے ۔ [العلل المتناہیہ ،ص: ۱۲۱، ج۱] خودعلامہ ابن جوزی رحمہ اللہ نے بندگان الٰہی کے اخلاق وکردار سے متعلق احادیث پرمشتمل ’’اربعین ‘‘تالیف کی ہے، لیکن زیادہ شہرت اورقبولیت علامہ نووی کی ’’اربعین ‘‘ کوحاصل ہے ۔ہمیں اس بات پرتعجب ہے کہ جب ایک حدیث سرے سے ہی ثابت نہیں، پھراسے بنیاد بناکر احادیث جمع کرناچہ معنی دارد؟ اگر خیروبرکت اورخدمت دین کاجذبہ پیش نظر ہے توچالیس کی تعداد پرانحصار کرناکس بنا پرہے ۔بہرحال چالیس احادیث کویادکرنے ،لکھنے اورلوگوں تک پہنچانے کے متعلق جتنی بھی احادیث بیان ہوئی ہیں وہ محدثین کے قائم کردہ معیارصحت پر پوری نہیں اترتیں بلکہ ان کاضعف اس قدرشدید ہے کہ کثرت طرق سے بھی اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ سوال: تاریخ مدینہ نامی کتاب میں حضرت زید بن خارجہ رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فوت ہوجانے کے بعد گفتگو کی ’’ص:۱۱۰‘‘اس واقعہ کے متعلق وضاحت کریں کہ کہاں تک درست ہے، کیونکہ ایسے واقعات سے بدعتی حضرات کواپنی بدعات پھیلانے کاموقع ملتا ہے۔ جواب: کتب تاریخ میں ا س طرح کے متعدد واقعات بلاتحقیق درج ہوتے ہیں ۔جن سے شرک وبدعت کے چور دروازے کھلتے ہیں۔ چونکہ راقم آثم تاریخ سے متعلق واجبی ساعلم رکھتا ہے ،پھرتاریخی واقعات کی چھان پھٹک کے لئے کافی وقت چاہیے ، جوبدقسمتی سے میرے پاس نہیں ہے۔ملازمت کی ذمہ داریاں ،دعوتی پروگرام ،گھریلو مصروفیات اورمدرسہ کے لئے اعصاب شکن تگ ودو کے بعد کم وقت فتاویٰ نویسی کے لئے ملتا ہے۔ یہ صرف اللہ کی مہربانی ہے کہ کام چل رہا ہے۔ بہرحال سردست مذکورہ واقعہ کے متعلق گزارش یہ ہے کہ مرنے کے بعد کسی بندہ بشر کاگفتگو کرناقانون الہٰی کے خلاف ہے ،اگراللہ تعالیٰ اپنی قدرت کا مظاہر ہ کردے تواس سے کوئی بعیدنہیں ہے ۔میری معلومات کے مطابق یہ واقعہ موت سے پہلے کاہے، چنانچہ ابن عبدالبرالقرطبی لکھتے ہیں۔حضرت زیدبن خارجہ رضی اللہ عنہ کو موت سے پہلے غشی کادورہ پڑا،ایسامعلوم ہوتاتھا کہ اس کی روح پرواز ہوچکی ہے ،اس پر کپڑا ڈال دیا گیا، پھرچند لمحات کے بعد سکتہ کی کیفیت ختم ہوئی توانہوں نے حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمرفاروق اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے متعلق کچھ گفتگو کی ،اس کے بعد فوراًاس پرموت واقع ہوگئی۔ [الاستیعاب برحاشیہ الاصابہ ،ص:۵۶۱ ،ج۱] تاریخ مدینہ اوراستیعاب کے بیان میں زمین وآسمان کافرق ہے ،موت سے پہلے اس طرح کے واقعات پیش آنا کوئی بعیدبات نہیں ہے ۔چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ پرایک دفعہ غشی کادورہ پڑا،ان کی ہمشیرہ حضرت عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے روناشروع کردیااوربایں الفاظ بین کرنے لگی ،ہائے پہاڑوغیرہ جب انہیں ہوش آیا توکہنے لگے کہ جب تومیرے متعلق بین کر رہی تھی تومجھے کہاجاتا تھا واقعی توایساہے۔ [صحیح بخاری، حدیث نمبر :۴۲۶۷] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھاہے کہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فرشتہ نے لوہے کی گرز اٹھارکھی تھی اوروہ مجھ سے پوچھتا تھا کہ واقعی توایساتھا اگرمیں کہتا تومجھے مارکرٹکڑے ٹکڑے کردیتا ۔ [فتح الباری، ص:۶۴۷ج۷]