کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 492
ہشام بن حکیم ،سلیمان بن حرد،ابوجہم انصاری اورام ایوب انصاریہ ( رضی اللہ عنہم ) پیش پیش ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بے شمار تابعین اوران گنت ائمہ حدیث نے متعدد اسانید کے ساتھ اس حدیث کونقل کیا ہے۔ حدیث میں بیان شدہ سبعہ احرف کے متعلق بہت اختلاف ہے ،علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے علما کے چالیس اقوال کاذکر کیا ہے، اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ ا س متواتر حدیث کے کسی طریق میں کوئی بھی ایسی صریح عبارت موجودنہیں ہے ۔جوسبعہ احرف کی مراد کومتعین کردے ۔جبکہ اللہ تعالیٰ اوراس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کے وقت کسی بات کی وضاحت کو مؤخرنہیں کرتے ۔احادیث میں سبعہ احرف کی وضاحت نہ ہونے کی صرف یہ وجہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک سبعہ احرف کامفہوم اس قدر واضح تھا کہ کسی کوبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اورنہ ہی وہ اس مفہوم کوسمجھنے کے لئے کسی کے محتاج تھے۔ اگران کے ذہن میں کوئی اشکال پیداہوتا تووہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عقدکوحل کرنے کی کوشش کرتے۔ حالانکہ یہ حضرات قرآن کے متعلق اس قدر حساس تھے کہ سبعہ احرف سے متعلق اگرکسی نے کسی دوسرے قاری سے مختلف انداز پر قراء ت سنی توقرآن کریم میں اختلاف واضطراب کے واقع ہوجانے کے خوف سے فوراًرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع فرمایا، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ خود اپنی سرگزشت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کوسورۂ فرقان پڑھتے ہوئے سنا ،میں نے جب غور کیا تومعلوم ہواکہ وہ متعدد الفاظ اس طرح تلاوت کررہے ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں سکھائے تھے ۔چنانچہ حضرت ہشام کونمازہی میں روک لینے پرتیار ہوگیا لیکن میں نے بمشکل اپنے آپ کواس اقدام سے روکے رکھا ،جونہی انہوں نے سلام پھیر اتو میں انہیں ان کے کپڑوں سے کھینچتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلا ،اس اثنا میں سوال کیا کہ آپ کویہ سورت اس انداز پرپڑھنے کی کس نے تعلیم دی ہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت اس طریقہ سے نہیں پڑھائی ،جس پرمیں نے تجھے تلاوت کرتے ہوئے سناہے، چنانچہ میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لے چلا، وہاں پہنچ کر میں نے عرض کیایارسول اللہ! میں نے اسے سورۂ فرقان ایسے طریقہ پر پڑھتے سنا ہے کہ آپ نے مجھے اس طرح نہیں پڑھائی ہے ،آپ نے فرمایا کہ ’’ہشام کو چھوڑ دو۔‘‘ میں نے اسے چھوڑاتوآپ نے فرمایا: ’’ہشام تم پڑھو۔‘‘ تب ہشام نے اسی طرح تلاوت کی جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا ،آپ نے فرمایا: ’’یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے۔‘‘ پھرآپ نے مجھے پڑھنے کاحکم دیا تومیں نے اسی انداز سے اسے تلاوت کیا،جیسا کہ آپ نے مجھے پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اسی طرح بھی نازل کی گئی ہے۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا: ’’یہ قرآن سات حروف پرنازل کیاگیا ہے، لہٰذا جوحروف تمہیں آسان معلوم ہو ں اس پرقرآن کی تلاوت کرو۔‘‘ [صحیح بخاری ،فضائل القرآن : ۵۰۴۱] اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ایک تو یہ تمام وجوہ قراء ت منزل من اللہ ہیں ۔دوسرے یہ کہ ان وجو ہ کااختلاف تناقص وتضادکانہیں بلکہ تنوع اورزیادتی معنی کی قسم سے ہے۔ اس تنوع کے بے شمار فوائد ہیں جو فن توجیہ القراء ات میں بیان ہوئے ہیں اور اس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔