کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 488
نیز فرمایا کہ’’ جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اورکئی فرقوں میں تقسیم ہوگئے ،ان سے آپ کوکوئی سر وکار نہیں ،ان کامعاملہ اللہ کے سپرد ہے ۔‘‘ [۶/الانعام :۱۶۰] آیت کریمہ میں ’’لوگوں سے مراد یہود ونصارٰی ہیں جونفسانی خواہشات اورحصول اقتدار کی بنا پر مختلف گروہوں میں بٹ گئے اورایک دوسرے کوکافر کہنے لگے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہودی اکہتر(71) فرقوں میں اور نصارٰی بہتر(72) گروہوں میں بٹ گئے۔ آخرکارمیری امت تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی جن میں ایک فرقہ کے علاوہ سب دوزخی ہوں گے۔‘‘ عرض کیاگیاکہ وہ نجات یافتہ کون لوگ ہوں گے؟ آپ نے فرمایا کہ ’’جواس راستہ پرچلیں گے جس پر میں اورمیرے صحابہ رضی اللہ عنہم گامزن ہیں ۔ ‘‘ [ترمذی ، الایمان :۲۶۴۱] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہر گمراہ فرقے کی بنیاد کوئی اختر اعی عقیدہ یاخود ساختہ عمل ہوتا ہے ۔ لہٰذامسلمان کو اس بات کی تحقیق کر لینی چاہیے کہ اس کاکوئی عقیدہ یاعمل ایساتونہیں ہے جوعہد رسالت اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں پایا جاتا ہو ۔ اگرکسی عقیدہ یا عمل کا ثبوت کتاب وسنت سے نہیں ملتا تواسے سمجھ لیناچاہیے کہ وہ گمراہی میں مبتلا ہے ۔ارشادباری تعالیٰ ہے کہ’’ دین کوقائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔‘‘ [۴۲/الشوریٰ :۱۳] واضح رہے کہ لوگوں میں اختلاف اور تفرقہ، اس لئے نہیں ہوتاکہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں کوئی ابہام یاسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی الجھن ہے۔ جس کی لوگوں کوپوری طرح سمجھ نہیں آتی بلکہ اس کی اصل وجہ اپنا اپنا جھنڈا اونچا کرنے کی خواہش یامال وجاہ کی طلب ہوتی ہے، پھراس کے بعد باہمی ضد اورایک دوسرے کوزک کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ وہ اسباب ہیں جولوگوں کودین کی کشادہ راہ اورسیدھے راستہ سے ہٹاکر مختلف پگڈ نڈیوں پرڈال دینے کاباعث ہوئے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ان لوگوں میں فرقہ بندی اس وقت پیداہوئی جب وہ ضدباز ی پراترآئے، حالانکہ اس سے پہلے ان کے پاس علم وحی آ چکا تھا ۔‘‘ [۴۲/الشوری :۱۴] الحمدللہ !جماعت اہل حدیث کے منہج اورطرز عمل میں فکر وعقیدہ اورعمل وکردار کے اعتبار سے کوئی کجی نہیں ہے ،کیونکہ یہ لوگ اس دین کوتھامے ہوتے ہیں،جن پرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم عمل پیراتھے ان کی شناختی علامت یہ ہے : اصل دین آمد کلام اللّٰہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجان مسلم داشتن جماعت اہل حدیث کے عقیدہ وعمل کودرج ذیل حدیث کی روشنی میں دیکھاجاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میری امت کاایک گروہ ہمیشہ اللہ کے احکام کوقائم رکھے گا۔ان کی تکذیب کرنے والے یاانہیں رسواکرنے والے ان کاکچھ نہیں بگاڑ سکیں گے حتیٰ کہ جب قیامت آئے گی تویہ لوگ احکام الٰہی پرکاربند ہوں گے۔‘‘ [صحیح بخاری :۷۴۶۰] یہی وہ اجنبی لوگ ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مبارک باددی ہے :’’کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جومیرے اس طریقہ کی اصلاح کرتے ہیں جسے مختلف لوگوں نے خراب کر دیاہوگا۔‘‘ [ترمذی ،الایمان :۲۶۳۰] جماعت اہل حدیث کے افراد عملی کوتاہی کاشکار توہوسکتے ہیں لیکن من حیث الجماعت فکروعمل کی کوتاہی سے محفوظ ہیں ،باقی رہااہل حدیث نام کامسئلہ تویہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ یہ ایک لقب ہے جواصحاب الرائے اورروافض سے ممتاز ہونے کے لئے