کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 483
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی توآپ نے فرمایا کہ’’ تمہار اجہادبیت اللہ کاحج کرناہے۔‘‘ [صحیح بخاری ، الجہاد :۲۸۷۵] اللہ کے دین میں عورتوں کے اس جہاد ’’حج بیت اللہ ‘‘کی اس قدراہمیت ہے کہ ایک آدمی جس نے غزوہ میں شرکت کے لئے نام لکھوا رکھا تھا، اسے واپس کردیاگیا کیونکہ اس کی عورت حج کرناچاہتی تھی۔ [صحیح بخاری ،الحج :۱۸۶۲] اس پرفتن دورمیں عورتوں کوچاہیے کہ گھرمیں چاردیواری میں رہتے ہوئے ،فرائض و واجبات کی پابندی کریں ۔چادر اور چار دیواری کاتحفظ ہی ان کے لئے جنت کی ضمانت ہے ۔کتب احادیث میں شہادت کی کئی ایک صورتیں بیان کی گئی ہیں۔اگرنیت خالص، ایمان کامل اور یقین صادق ہے تواللہ تعالیٰ شہادت کاشوق رکھنے والی عورتوں کواس سعادت سے محروم نہیں کرے گا۔ اب ہم سوال میں پیش کردہ ذہنی الجھن کا حل پیش کرتے ہیں۔ رشتۂ ازواج دنیاکابہت حساس اورانتہائی قیمتی بندھن ہے، اس لئے اس کے ہرنازک پہلوپر سنجیدگی کے ساتھ غوروفکر کرکے سرانجام دینا چاہیے۔ اسے عام حالات میں ایک بارہی اداکیاجاتا ہے۔ بجلی کے بلب کی طرح نہیں ہے،کہ جب جی چاہے اتارکردوسرالگادیاجائے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جوراہنما اصول متعین فرمائے ہیں ،اگرانہیں پیش نظر رکھاجائے تو کبھی ناکامی اورخسارے کاسامنانہیں کرناپڑتا ۔ ہمارے ہاں عام طورپر نکاح کے لئے مال و متاع ،حسن وجمال، حسب ونسب کودیکھا جاتا ہے، جبکہ شریعت کی نظر میں یہ چیزیں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔اس سلسلہ میں اولیت اورترجیح دین واخلاق کوحاصل ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ’’نکاح کے لئے عورت کی چار چیزوں کو دیکھاجاتا ہے، یعنی اس کامال ،خوبصورتی ،خاندانی حسب ونسب اوراسلامی اقدار وغیرہ مسلمان کو چاہیے کہ وہ دین داری کوترجیح دے کرکامیابی حاصل کرے۔‘‘ [صحیح بخاری ، النکاح : ۵۰۹۰] جولوگ دین کونظرانداز کرکے دیگر معیارزندگی دیکھتے ہیں ،وہ جلدہی اس کے بھیانک انجام سے دوچار ہوجاتے ہیں کیونکہ ’’بلند معیار‘‘ کی تلاش میں بیٹوں کواپنے گھر کی دہلیز پربوڑھا کردیاجاتاہے۔ اس کے بعد فتنہ وفساد کے علاوہ کیامل سکتا ہے ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ’’جب تمہارے پاس دین واخلاق کاحامل رشتہ آئے تونکاح کردو ،بصورت دیگر فتنہ اور بہت بڑا فساد ہو گا۔‘‘ [ترمذی، النکاح: ۱۰۸۵] نکاح کے سلسلہ میں نہ تووالد کوکلی اختیارات ہیں کہ وہ جہاں چاہے اپنی بیٹی کواعتماد میں لئے بغیر اس کانکاح کر دے اور نہ ہی عورت مطلق العنان ہے، کہ وہ اپنی مرضی سے جس سے چاہے نکاح کرلے بلکہ جہاں سرپرست کویہ اختیاردیاگیا ہے کہ اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، وہاں اسے پابندبھی کیاگیاہے کہ نکاح سے پہلے وہ بیٹی یابہن کواعتماد میں لے ۔امام بخاری رحمہ اللہ جو امیرالمؤمنین فی الحدیث ہیں اوران کی مصالح عباد پربڑی گہری نظرہوتی ہے۔ اس کے ساتھ سا تھ وہ استدلال میں نصوص کاپہلو بھی انتہائی مضبوط رکھتے ہیں۔ نکاح کے سلسلہ میں انہوں نے بہت متوازن راہنمائی کی ہے۔ وہ سوال میں ذکرکردہ ذہنی الجھن کے حل کے لئے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کرتے ہیں ’’جس شخص کایہ موقف ہے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔‘‘اس کامطلب یہ ہے کہ نکاح کے سلسلہ