کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 48
سوال: پاکپتن میں بابا فرید کی قبرپر ایک بہشتی دروازہ ہے، جسے ایک سال کے بعد کھولا جاتاہے اور اس سے گزرنے والے عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے جنت کے دروازے کوپار کر لیا ہے ۔اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ… 1۔ اس دروازہ کی قفل کشائی ایک مجاور کرتا ہے جبکہ جنت کادروازہ تورسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کھولیں گے ،کیایہ توہین رسالت نہیں ہے۔ 2۔ جولوگ اس دروازے سے گزرتے ہیں ،ان کے متعلق شرعاًکیاحکم ہے؟ 3۔ استفتاح میں جوصورتحال بیان کی گئی ہے اس میں صرف توہین رسالت ہی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی توہین کابھی نمایاں پہلوپایاجاتاہے۔ اس سے بڑھ کر یہ پورے عالم اسلام سے استہزاء ومذاق کے مترادف ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاں آسمانوں پرجنت کوپیدا کیا ہے اور اس میں اہل ایمان کے لیے بے شمار ایسی نعمتیں پیدا کی ہیں جوآج ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں ہیں۔ اس میں اﷲ تعالیٰ اپنے ماننے والوں کونہایت اعزازواحترام سے داخل فرمائیں گے اورخودرسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم اس جنت کا افتتاح فرمائیں گے۔اس کے برعکس بابافرید کی قبر پر جنت کے بغیر صرف ایک دروازہ نصب ہے جسے بہشتی دروازہ کہا جاتا ہے، اس پر عربی عبارت بھی غلط تحریر ہے عبارت اس طرح ہے ۔ ’’مَنْ دَخَلَ ہَذِہِ الْبَابَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ‘‘ یعنی ’’ھذا‘‘ کے بجائے ’’ھٰذِہِ‘‘ لکھا ہے۔ اس میں داخل ہونے والوں کی خوب مرمت کی جاتی ہے، انہیں وہاں تعینات افراد زودوکوب کرکے گناہوں سے پاک کرتے ہیں۔ پولیس کی لاٹھیاں کھانے کے بعد ’’بابا فرید‘‘ ’’بابافرید‘‘کہتے ہوئے وہاں سے بھاگتے ہیں۔ لیکن اﷲ تعالیٰ کی جنت میں ایسا سلوک نہیں ہوگا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جن لوگوں نے کہا کہ ہماراپروردگا راللہ ہے، پھر اس پر ڈٹ گئے ،ان پرفرشتے نازل ہوتے ہیں اوران سے کہتے ہیں نہ خوف کرواورنہ غم کھاؤ اوراس جنت کی خوشی مناؤ، جس کاتم سے وعدہ کیاجاتاہے ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے دوست تھے اور آخرت میں بھی تمہارے دوست ہیں۔اس آخرت میں تمہارا جوجی چاہے گاتمہیں ملے گا اورجوکچھ مانگوگے پورا ہوگایہ بخشنے والے مہربان کی طرف سے مہمانی ہوگی ۔ ‘‘ [۴۱/حٰمٓ السجدہ:۳۲] اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمت عملی کے ساتھ ان لوگوں کوراہ راست پرلایا جائے ،یہ دراصل جہالت کے کرشمے ہیں، یہ لوگ حقیقی جنت سے ناآشنا ہیں، انہیں اس حقیقی جنت سے آشنا کرنے کے لیے محنت کی ضرورت ہے جسے ہم ادا نہیں کررہے ہیں۔ واﷲ المستعان سوال: کیا انسان کونظر لگ جاتی ہے ،اگر ایسا ہے تو اس کے لیے کیاعلاج ہے ،اس کے متعلق تفصیل سے ہمیں آگاہ کریں؟ جواب: نظر بد برحق ہے اوراس سے کسی کونقصان پہنچنا ممکن ہے ،شرعی اورحسی طور پریہ ثابت ہے۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’نظر لگنابرحق ہے اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت کرنے والی ہوتی تواس سے نظر بد ضرور سبقت کرتی اور جب تم سے دھونے کامطالبہ کیاجائے توا س مطالبے کوپورا کرتے ہوئے غسل کردیاکرو ۔ ‘‘ [صحیح مسلم ،الطب : ۲۱۸۸] اس سے معلوم ہوا کہ نظر بد کا لگ جاناایک حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں ،حدیث میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام