کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 475
وغیرہ، لیکن ان حرام اجزا پر مشتمل خوراک استعمال کرنے سے ان کی حلت متاثر نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ حیوانات حلال و حرام کے مکلف نہیں، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ’’مرغی کے گوشت‘‘ کے متعلق ایک عنوان قائم کیا ہے۔ اس کے تحت وہ ایک واقعہ لائے ہیں۔ حضرت زھدم کہتے ہیں کہ ہم حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، قبیلۂ جرم کے لوگ بھی وہاں موجود تھے اور ہمارا اس قبیلہ سے بھائی چارہ تھا۔ انہیں کھانا پیش کیا گیا، اس میں مرغی کا گوشت بھی تھا۔ اس قبیلہ کا ایک آدمی کھانا کھانے کے بجائے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گیا۔ اسے پوچھا گیا کہ آپ کے اس طرز عمل کی کیا وجہ ہے؟ اس نے وضاحت کی کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے دیکھا ہے ، اس لئے اسے پسند نہیں کرتاہوں۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرغی کا گوشت کھاتے دیکھا ہے، اس لئے تمہیں بھی تکلف سے کام نہیں لینا چاہیے۔ [صحیح بخاری، الذبائح:۵۱۵۱۸] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیوانات وغیرہ اس کے مکلف نہیں ہیں کہ وہ حلال غذا استعمال کریں۔ الغرض حلال جانور کا گوشت کھانا جائز ہے، خواہ اسے حرام اجزا پر مشتمل خوراک دی جائے، اس لئے صورت مسئولہ میں برائلر مرغی کا گوشت حلا ل ہے اور اس کی تخلیق غیر فطری نہیں۔ اگر دل نہ چاہے تو کسی کو کھانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ [واللہ اعلم] سوال: فرقہ بازی کیا ہے؟ جسے اللہ تعالیٰ نے معیوب قرار دیا ہے اور حکومت، نیز عوام الناس بھی اس کی مذمت کرتے ہیں؟ جواب: اہل تفریق کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ ڈالا اور خود فرقوں میں بٹ گئے، ان سے آپ کو کچھ سروکار نہیں، ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔‘‘ [۶/الانعام:۱۵۹] فرقہ بازی ایک ایسی لعنت او رباعث مذمت ہے جو ملت کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیتی ہے۔ جب لوگوں میں یہ عادات بد پائی جاتی ہیں، ان کی ساکھ اور عزت دنیا کی نظروں میں گر جاتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرقہ بندی کو اپنے عذاب کی ایک شکل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ وہ تم پر تمہارے اوپر سے کوئی عذاب نازل کرے یا تمہارے پائوں کے نیچے سے کوئی عذاب مسلط کر دے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کرکے ایک فرقے کو دوسرے سے لڑائی کا مزہ چکھا دے۔ [۶/الانعام:۶۵] حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت بالا میںذکر کردہ تمام قسم کے عذابوں سے اللہ کی پناہ مانگی اور میری امت پر اس قسم کے عذاب نہ آئیں۔ چنانچہ پہلی اور دوسری قسم کے عذابوں کے متعلق آپ کی دعا قبول ہو گئی مگر تیسری قسم کے عذاب جو فرقہ بندی سے متعلق ہے، دعا قبول نہ ہوئی بلکہ آپ نے اس عذاب کو پہلے دونوں عذابوں کی نسبت آسان قرار دیا ہے۔ [صحیح بخاری،التفسیر:۴۶۲۸] اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی دو قسم کا عذاب اس امت کے کلی استیصال کے لئے نہیں آئے گا، البتہ جزوی طور پر آسکتا ہے۔ رہا تیسری قسم کا عذاب تو وہ اس امت میں موجود ہے جس نے ملت اسلامیہ کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے مسلمانوں کو ایک مغلوب قوم بنا رکھا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور پیشین گوئی فرمایا تھا: ’’ بنی اسرائیل بہتر (۷۲)فرقوں میں تقسیم ہو گئے جبکہ میری امت تہتر (۷۳)فرقوں میں بٹ جائے گی۔ ایک گروہ کے