کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 473
الاسلام نے جواب دیا: ’’اولاد کو سود کی جس مقدار کا علم ہے، وہ اس سے نکال دے اور اگر ممکن ہو تو وہ لوگوں کو واپس کرے، اسے صدقہ نہ کرے اور جو باقی ہے اسے وراثت کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جس مقدار میں شبہ ہو اس کے متعلق بہتر ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے اور اگر مال میں حرام اور حلال دونوں کی ملاوٹ ہو اور اس کی مقدار کا علم نہیں تو اس کے دو حصے کرلینے چاہییں، یعنی نصف حلال اور نصف حرام کا، حلال حصہ کو استعمال کرلیا جائے۔ [مجموعہ الفتاویٰ، ص: ۳۰۷، ج۲۹] بہرحال والد کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں اہل علم کا تعاون بھی لیا جاسکتا ہے،اس کے دوست و احباب سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے، تاکہ اسے مطمئن کرکے حرام کمائی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ [واللہ اعلم] سوال: ہم اپنے ایک دوست کو اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ رشوت لینے اور دینے والے کی قربانی جائز نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی فرمائیں۔ جواب: واضح ہو کہ رشوت دینا اور رشوت لینا ایک سنگین جرم ہے۔ ان دونوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ جہنم کی آگ سے مراد ایک تو وہ آگ ہے جس کا مجرم لوگ قیامت کے دن ترنوالہ بنیں گے، دوسری آگ دنیا کی ہے اس سے مراد وہ ناکامی و محرومی ہے جو رشوت خور کا کسی وقت بھی پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ’’رشوت لینے اور دینے والے دونوں ملعون ہیں۔‘‘ لعنت سے مراد وہ بے برکتی ہے جس کے بعد رشوت خور اللہ تعالیٰ کی نظر رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ ا س صورت میں برآمد ہو تا ہے کہ اس کا دل بالکل سیا ہ ہو جاتا ہے اور اس سے سوچ و بچار کی تمام قوتیں سلب کر لی جاتی ہیں۔ رشوت لینا اور دینا اس قدر سنگین جرم ہو نے کے باوجود ایسا عمل نہیں ہے کہ دوسرے اعمال کی خرابی کا باعث ہو، اگرچہ شریعت مطہرہ کے متعلق فکر و عمل کی ایسی بے اعتدالیاں موجود ہیں جو انسان کے دوسرے نیک اعمال کی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں، جیسا کہ شرک کے متعلق صراحت ہے کہ اس کی موجودگی میں انسان کا کوئی عمل بھی صالح قرار نہیں پاتا بلکہ اس کے ارتکاب سے پہلے کئے ہوئے نیک اعمال بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس طرح بدعت کا بھی یہی حال ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق: ’’صاحب بدعت سے کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘ رشوت لینا، دینا سخت ترین جرم ہونے کے باوجود ایسا جرم نہیں ہے کہ اس کے ارتکاب سے دوسرے اعمال خراب ہو جاتے ہوں، البتہ رشوت کی رقم سے قربانی یا صدقہ کیاجائے تو بلا شبہ حرام اور ناقابل قبول ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ خود بھی پاک ہے اور پاکیزہ عمل کوہی قبول کرتا ہے۔‘‘ [ترمذی، کتاب الزکوٰۃ: ۶۶۱] چونکہ رشوت لینا پاکیزہ کمائی نہیں بلکہ حرام اور پلید ہے، لہٰذا اس کی رقم سے خریدا ہوا کوئی بھی جانور اللہ کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے محروم رہے گا۔ کسب حلال کی اہمیت مخفی نہیں ہے۔ عبادات کی قبولیت کا دار و مدار کسب حلال پر ہے۔ بشرطیکہ قبولیت کی دوسری شرائط بھی ملحوظ رکھی جائیں، وہ ایمان و عقیدہ کی سلامتی اور شرک و بدعت سے اجتناب ہے۔ اس مسئلہ پر بایں پہلو بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ بعض اوقات انسان اپنا حق لینے کے لئے رشوت دیتا ہے اور یہ ایک مجبوری ہے، اگرچہ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے حالات میں اپنے حق سے دستبردار ہوجائے اور رشوت دینے کا سنگین جرم نہ کرے، لیکن جواز کی حد تک اس کی گنجائش ہے، لہٰذا ایسے