کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 467
اس روایت کی سند میں صرف تہمت زدہ راوی نہیں بلکہ کذاب اور جھوٹے راوی موجود ہیں۔ محدث العصر علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے موضوع قرار دیا ہے اور اس کے تمام طرق پر بحث کرکے اس کا خود ساختہ ہونا واضح کیا ہے۔[ضعیف الجامع الصغیر:۱۴۱۶] اس روایت کے مقابلہ میں ایک صحیح روایت ملاحظہ ہو جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ ’’خواب میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا میں نے اس میں سے کچھ دودھ نوش کیا حتی کہ اس کی سیرابی میرے ناخنوں تک ٹپکنے لگی۔ میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا :’’اس کی تعبیر علم ہے۔‘‘ [صحیح بخاری کتاب تعبیر الرویا، باب رویتہ اللبن] ایسامعلوم ہو تا ہے کہ اس روایت کو نیچا دکھانے کے لئے مذکورۃ الصدر روایت کو وضع کیا گیا ہے۔ عرصہ ہوا کہ راقم نے اس روایت کی استنادی حیثیت ہفت روزہ ’’اہلحدیث‘‘۳۱مارچ۱۹۸۹ء میں واضح کی تھی۔ اس کا دفاع سید بشیر حسین بخاری نے پندرہ روزہ ’’ذوالفقار‘‘ پشاور میں کیا۔ ان کے مبلغ علم سے قارئین اس دفاع کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بخاری صاحب نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ تمام قرآن حکیم کا لب لباب بسم اللہ میں ہے اور بسم اللہ کا اس کی ب میں اور ب کا اس کے نقطہ میں جو اس کے نیچے ہے اور وہ نقطہ میں ہوں‘‘۔ پندرہ روزہ ذوالفقار مجریہ،۱۶اپریل۱۹۸۹) معتقدین اور متوسلین کو خوش کرنے کے لئے تو اس طرح کی بے کار روایات سہارا بن جاتی ہیں،لیکن علمی دنیا میں اس طرح کی روایات کا کوئی مقام نہیں ہے۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: ایک شخص کی کچھ رقم چوری ہو گئی، اسے دو آدمیوں پر شبہ تھا جو اس کے پاس آنے جانے والے تھے، اتفاق سے ایک تیسرے آدمی نے حلفیہ بیان دیا کہ جن پر چوری کا شبہ تھا انہوں نے میرے سامنے چوری کا اقرار کیا ہے۔لیکن جب معاملہ کی چھان بین کی گئی تو انہوں نے صاف صاف انکار کردیا کہ ہم نے کسی کے پاس کوئی اقرار نہیں کیا ہے۔ کیا اس تیسرے آدمی کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر مشتبہ آدمیوں پر چوری ڈالی جاسکتی ہے؟ جواب: چوری کا جرم ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ملزم اقرار جرم کرے یا دو عادل گواہ ملزم کے ارتکاب جرم کی عینی شہادت دیں۔ صورت مسئولہ میں دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ اقرار کی دھندلی سی ایک شہادت ہے اور وہ بھی انکار بعد از اقرار کی صورت اختیار کر چکی ہے۔اتنی سی بات سے چوری ثابت نہیں ہو تی۔ اگرایک گواہ کی بھی عدالت ثابت ہو جائے جو چوری کی گواہی کے لئے ضروری ہو تی ہے تو مدعی کی قسم سے فیصلہ ہو سکتا تھا۔لیکن یہاں یہ صورت بھی نہیں، کیونکہ مدعی کس بات کی قسم اٹھائے اور اگر مدعی قسم اٹھانے پر آمادہ بھی ہو جائے تو اس کی کیا بنیاد ہے؟ اگر گواہ کی عدالت بھی مشتبہ ہو اور مدعی کا قسم اٹھانا بھی بے بنیاد ہو تو اتنی سی بات سے جرم ثابت نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی تیسرے آدمی کے بیان حلفی کو بنیاد بنا کر مشتبہ آدمیوں پر چوری ڈالی جاسکتی ہے بلکہ صورت مسئولہ میں مدعیان علیہما سے قسم لے کرانہیں بے قصور قرار دینا ہی مناسب معلوم ہو تا ہے۔ سوال: اس وقت موبائل فون کا ایک عام رواج ہے۔ بعض اوقات دوران نماز اسے بند نہیں کیا جاتا وہ اطلاعی گھنٹی کے موقع پر بجنا شروع ہو جاتا ہے جس سے نماز کا خشوع متاثر ہو تا ہے۔ اب الجھن یہ ہے کہ اگر اسے دوران نماز بند کردیا جائے تو یہ عمل نماز کے