کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 466
اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے‘‘۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے ،اگر صحیح ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ جواب: ہمارے ہاں بیشتر احادیث زبان زد خاص و عام ہیں، لیکن ان کی اسنادی حیثیت انتہائی مخدوش ہوتی ہے۔ اس میں سے ایک یہ ہے جس کا سوال میں حوالہ دیا گیا ہے۔ اس روایت کو امام حاکم نے اپنی تالیف مستدرک میں بیان کیا ہے۔ [مستدرک، ص: ۱۲۶، ج۳] یہ حدیث بیان کرنے کے بعد امام حاکم کہتے ہیں کہ اس کی سند صحیح ہے اور ا بو ا لصلت نامی راوی ثقہ اور باعث اطمینان ہے۔ [تلخیص المستدرک ص:۱۲۶،ج۳] اس روایت کے متعلق ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ امام حاکم کا اس طرح کی باطل روایات کو صحیح قرار دینا انتہائی تعجب انگیز ہے اور اس کا ایک راوی احمد تو دجال اور دروغ گوہے۔ اس کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ محدثین کے نزدیک یہ روایت ضعیف بلکہ موضوع ہے۔ [احادیث القصاص، ص: ۷۸] خطیب بغدادی، امام یحییٰ بن معین کے حوالے سے اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ روایت جھوٹ کا پلندہ اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ [تاریخ بغداد،ص:۲۰۵،ج۱۱] یہ روایت مختلف الفا ظ سے مروی ہے اور اس کے تمام طرق بے کار ہیں۔ امام جوزی رحمہ اللہ نے اس روایت کے تمام طرق پر بڑی سیر حاصل بحث کی ہے جو تقریباً چھ صفحات پر پھیلی ہوئی ہے۔ انہوں نے عقلی اورنقلی لحاظ سے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں یہ حدیث کسی بھی طریق سے صحیح ثابت نہیں ہے۔ [موضوعات،ص:۳۵۳،ج۱] اس روایت کے دوسرے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’میں دانائی کا گھر ہوں اور علی رضی اللہ عنہ اس کا دروازہ ہے‘‘۔ [ترمذی، کتاب المناقب: ۳۷۲۳] امام ترمذی رحمہ اللہ اس روایت کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں غرابت اور نکارت ہے۔ حافظ سخاوی، امام دار قطنی کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہونے کے ساتھ ساتھ بے بنیاد بھی ہے۔ [المقاصد الحسنہ، ص:۹۷] اس روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ اور دیگر حضرات نے اسے بیان کیا ہے۔ ان کے بیان کرنے کے باوجود یہ محض جھوٹ ہے۔ [احادیث القصاص،ص:۷۸] علامہ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسماعیل بن موسیٰ سے انہوں نے محمد بن عمر سے انہوں نے شریک سے بیان کی ہے مجھے معلوم نہیں ان میں سے کس نے اسے وضع کیا ہے۔ [میزان الاعتدال،ص:۶۹۸،ج۳] علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو موضوعات میں شمار کیا ہے۔ [الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعہ، ص: ۲۴۸] اگرچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے کثرت طرق کی وجہ سے حسن کہا ہے لیکن ان کا یہ فیصلہ محل نظر ہے کیونکہ کثرت طرق سے روایت میں پایا جانے والا معمولی سقم تو دور ہو سکتا ہے لیکن بنیادی کمزوری اس سے رفع نہیں ہو تی۔ چنانچہ محدث ابن الصلاح لکھتے ہیں: کثرت طرق سے ضعف رفع نہیں ہو تا وہ یہ ہے کہ اس روایت میں کوئی راوی متہم بالکذب ہو ۔ [مقدمہ ابن الصلاح، ص:۳۱]