کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 463
کرنا جائز ہے۔ براہ کرم اولین فرصت میں جواب دیں۔کیونکہ ہمارا مذہبی اور دین دار طبقہ اس انداز کو بہت پسند کرتا ہے۔ جواب: موبائل ایک آلہ ہے بذات خود اچھا یا برا نہیں بلکہ اس کے استعمال سے اس کے اچھے یا برے ہونے کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر اسے شریعت مقدسہ کے دائرہ میں رہتے ہوئے استعمال کیا ہے تو ٹھیک بصورت دیگر اس کا غیر شرعی استعمال ہمارے لئے باز پرس کا باعث ہو گا، چنانچہ شعائر کا احترام انتہائی ضروری ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’اے ایما ن والو! اللہ کے شعائر کی بے حرمتی نہ کرو۔‘‘ [۵/المائدہ:۲] بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’جو شعائر اللہ کی تعظیم کرتا ہے تو یہ بات دلوں کے تقویٰ سے متعلق ہے۔‘‘ [۲۲/الحج:۳۲] اس بنا پر موبائل کی سکرین پر لفظ اللہ، الحمد للہ، قرآنی آیات یا بیت اللہ کی تصویر شرعاً درست نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے لفظ جلالہ، قرآنی آیات، بیت اللہ کی بے حرمتی کااندیشہ ہے کیونکہ اسے ہر وقت اپنے ساتھ رکھا جاتا ہے، اس کے بجائے سکرین پر کوئی قدرتی منظر، درخت یا پھول وغیرہ کی تصویر مناسب ہے ۔ اس طرح اللہ کا ذکر یا کلمات اذان یا تسبیحات وغیرہ کی اطلاعی گھنٹی کے طور پر استعمال کرنا بے ادبی ہے۔ کیونکہ اللہ کا ذکر بطور عبادت ہوتا ہے۔ اذان، نماز کی اطلاع کے لئے ہے، اسی طرح قرآن کی تلاوت بھی غیر مقصد کے لئے استعمال نہیں ہو سکتی۔ ہمارے اسلاف کے سامنے جب کسی حکم کا غلط استعمال ہوتا ہے تو وہ اس پر خاموش نہیں رہتے تھے بلکہ اس کی اصلاح فرماتے، مثلا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک دفعہ سوئے ہوئے تھے تو انہیں بیدار کرنے کے لئے ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کہا گیا فرمایا ان کلمات کو اپنے مقام پر رہنے دو، لہٰذا موبائل فون میں اطلاعی گھنٹی کے طور پر مقدس کلمات سیٹ کرنا شرعاً درست معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے السلام علیکم ریکارڈ کرلیا جائے یا سادہ گھنٹی استعمال کی جائے۔ [واللہ اعلم ] سوال: ہمارے ڈیرے پر نا معلوم افراد نے فائرنگ کی، ہمیں جن لوگوں پر شبہ تھا، سراغ رسانی کے کتوں کے ذریعے ان پر الزام صحیح ثابت ہوا۔جبکہ انہوں نے صحت جرم سے انکار کردیا۔ برادری کے کچھ آدمی ان کی صفائی دینے کے لئے تیار ہوئے ۔ ہم نے ان سے دس آدمیو ں کا انتخاب کیا اور دو لاکھ روپیہ بطور ضمانت رکھ لیا کہ اگر ان میں سے ایک آدمی بھی منحرف ہو تو زرضمانت کو ضبط کرلیا جائے گا۔ اس معاملہ کی شرعی حیثیت کے متعلق وضاحت کریں تاکہ ہم کسی نتیجہ پر پہنچ سکیں؟ جواب: کسی مسلمان کو بلا وجہ مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا ، اگر کسی پر شک و شبہ ہو تو اسے ثابت کرنے کے لئے شریعت نے دو چیزوں کا اعتبار کیا ہے۔ ایک یہ کہ ملزم خود اقرار جرم کرے ،یا اس کے جرم کو ثابت کرنے کے لئے دو گواہ پیش کئے جائیں۔ اگر ملزم کی طرف سے اقرار جرم نہ ہو اور نہ ہی اس کے خلاف دو گواہ پیش کئے جاسکیں تو ملزم قسم اٹھا کر اپنے الزام سے بری ہو سکتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’مدعی پر دلیل پیش کرنا لازم ہے اور قسم وہ اٹھائے گا جس نے انکار کیا۔‘‘ [بیہقی، ص: ۲۵۲،ج۱۰] حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جھگڑا لے کر گئے۔ آپ نے فرمایا: ’’تجھے ثبوت جرم کے لئے دو گواہ پیش کرنا ہوں گے یا پھر مدعا علیہ سے قسم لی جائے گی۔‘‘ [صحیح بخاری، الشہادات: ۲۶۶۹] صورت مسئولہ میں مدعیان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس بات پر گواہ پیش کریں کہ واقعی فلاں لوگوں نے فائرنگ کی ہے۔