کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 461
ہے جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سر سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے جو اسے خواہشات کا غلا م بنا کر زندگی کے ٹیڑھے راستوں پر دھکیل دیتا ہے۔ ان کے علاوہ بے شمار آقا طاغوت کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں اور اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتے ہیں۔ پھر بے شمار آقائوں کا یہ غلام ساری عمر اس چکر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے محفوظ رہے۔ مختصر یہ ہے کہ طاغوت ہر وہ باطل قوت ہے جو اللہ کے مقابلہ میں اپنی عبادت یا اطاعت کرائے یا لوگ از خود اللہ کے مقابلہ میں اس کی عبادت یا اطاعت کرنے لگیں، خواہ وہ مخصوص شخص ہو یا ادارہ، گویا طاغوت سے مراد دنیا دار چودھری اور حکمران بھی ہو سکتے ہیں۔ بت شیطان اور جن بھی ہو سکتے ہیں اور ایسے پیر فقیر بھی ہو سکتے ہیں جو اللہ کے مقابلہ میں اپنی اطاعت کروانا پسند کرتے ہیں اور شریعت پر طریقت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح ہر انسان کا اپنا نفس بھی طاغوت ہو سکتا ہے جبکہ وہ اللہ کی اطاعت و عبادت سے انحراف کررہا ہو۔ ان سے محفوظ رہنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ان سب کا انکار کردیا جائے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اب جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ پر ایمان لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقہ کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا۔‘‘ [۲/البقرہ:۲۵۶] دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ’’جو لوگ طاغوت کی عبادت کرنے سے بچتے ہیں اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کے لئے بشارت ہے، لہٰذا آپ میرے بندوں کو کہہ دیجئے جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں، پھر اس سے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی اور یہ عقل مند ہیں۔ [(۳۹/الزمر:۱۸) واللہ اعلم بالصواب] سوال: ہمارے ہاں مواصلات کی ایک کمپنی ٹیلی نار کے لئے ٹاور کی جگہ مخصوص کی گئی جبکہ بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخانہ خاکے شائع کرنے میں ڈنمارک کا ملک پیش پیش تھا۔ جن سے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا تھا، لہٰذا اس ملک کی کمپنی کو ٹاور لگانے کی اجازت دینا اس کے معاشی بائیکاٹ کے خلاف ہے، جس کا فیصلہ کیا گیا تھا شرعی اعتبار سے اس مسئلہ کی وضاحت کریں تاکہ ہم اس کمپنی سے تعاون کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی فیصلہ کر سکیں؟ جواب: سورۂ ممتحنہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق دو اقسام کی نشاندہی کی ہے ۔ وہ کافر جو اسلام اور اہل اسلام کو نیچا دکھانے میں کوشا ں ہیں اور ان سے برسر پیکار ہیں، وہ کافر جو اپنے کفر پر توہیں لیکن اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں شریک نہیں ہیں۔کفار سے تعلقات کی بھی حسب ذیل تین اقسام ہیں: 1۔ موالات: دوستی اور قلبی تعلقات رکھنا، یہ تو کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں درست نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس سے سختی سے روکا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ تم اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بنائو۔‘‘ (۳/آل عمران: ۲۸) 2۔ مدارات: ظاہری طور پر خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ، رفع ضرر او ر مصلحت دین کے پیش نظر کفار کے ساتھ اس قسم کا تعلق رکھا جاسکتا ہے۔ ذاتی مفاد یا دینوی مصلحت کے لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ 3۔ مواسات: ضرورت مند پراحسان اور اس کی نفع رسائی کا اقدام یہ صرف ایسے کفار کے ساتھ کیا جاسکتاہے جو اہل حرب نہ ہوں، یعنی اہل اسلام سے برسرپیکار نہ ہوں۔ اگر کفار اہل اسلام کی مخالفت کرتے ہوئے میدان میں اتر آئیں اور اہل اسلام کو تکلیف