کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 455
کے ہاتھ میں دوران خطبہ ایک لاٹھی یا قوس تھی جس کے سہارے آپ کھڑے تھے۔ [ابو دائود، الصلوٰۃ،۱۰۹۶] اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دو ران خطبہ سہارا لینے کے لئے ہاتھ میں لاٹھی وغیرہ رکھنا سنت ضرور ہے لیکن چلتے وقت اسے ہمیشہ کے لئے سنت قرار دینا محل نظر ہے۔ اس کے علاوہ حبشہ کے فرمانروا حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھوٹا سا نیزہ بطور تحفہ بھیجا تھا وہ بھی کبھی کبھار کسی ضرورت کے لئے استعمال کرلیا جاتا تھا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے باہر تشریف لے جاتے تو میں اور ایک دوسرا بچہ پانی کا مشکیزہ اور چھوٹا نیزا اٹھا کر ساتھ لے جاتے۔ [صحیح بخاری، الوضو،۱۵۲] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس چھوٹے نیزے کو زمین نرم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا، بطور نشانی گاڑ دیا جاتا تاکہ گزرنے والوں کو پتہ چل جائے کہ ادھر کوئی آدمی بیٹھا ہے۔ [فتح الباری،ص: ۳۳۱، ج۱] اسے بعض اوقات بطور سترہ بھی آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تھا، چنانچہ حضرت ابو حجیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے ہاں تشریف لائے تو آپ نے وضو کیا او ر ہمیں ظہر اور عصر کی نماز پڑھائی اور آپ کے آگے بطور سترہ نیزہ گاڑ دیا گیا۔ [صحیح بخاری، الصلوٰۃ،۴۹۹] اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے پوچھا: ’’اے موسیٰ! تمہارے دائیں ہاتھ میں کیا ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی میری لاٹھی ہے۔ میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑتا ہوں، علاوہ ازیں میرے لئے اس میں اور بھی کئی فوائد ہیں۔‘‘ [۲۰/طہٰ:۱۷،۱۸] مذکورہ فوائد کے علاوہ دیگر فوائد کے ذریعے بھیڑوں کو ہانکنا، ریوڑ کی حفاظت کرنا،درندوں کے حملے سے بچانا اور ان کا تعاقب کرنا ہو سکتا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ’’ سنت موسوی‘‘ کہا جاسکتا ہے۔لیکن ہمیشہ چلتے وقت اپنے ہاتھ میں لاٹھی رکھنے اور اسے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دینے کے متعلق ہمیں شرح صدر نہیں ہے۔ [واللہ اعلم] سوال: نوری علم یا کالا علم، اسی طرح نوری جادو یا کالا جادو کرنے اور کروانے کے متعلق کیا حکم ہے؟ اسلام میں جادو کرنے یا کروانے کی کیا سزا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب: عام طور پر جادو کو کالا علم اور اس کے مقابلہ میں قرآنی عملیات کے ذریعے علاج کرنے کو نوری علم کہا جاتا ہے۔ کوئی جادو نوری نہیں ہو تا۔قرآنی سورتوں کو پڑھ کر اگر دم کیا جائے تو جائز ہے۔ لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ قرآنی عملیات کے ذریعے علاج کرنے والے حضرات بھی ان سورتوں میں بعض کلمات کا اضافہ کرتے ہیں ، ایسا کرنا بھی جادو ہی ہے۔ کیونکہ قرآنی الفاظ کی ترتیب بدلنا یا ان میں کلمات کے اضافہ سے شیاطین کا قرب مقصود ہوتا ہے، تاکہ ان کے ذریعے مریض سے متعلقہ معلومات حاصل کی جائیں پھر اس پر اپنی فنکاری کا سکہ جمایا جائے۔ اس قسم کے معالجین سے اجتناب کرنا چاہیے۔ شریعت میں جادو کرنے کوبڑے ہلاکت خیز گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ سات تباہ کن گناہوں سے دور رہو۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا :’’اللہ کے ساتھ شریک کرنا… اور جادو کرنا…‘‘