کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 452
گھروں اور دکانوں کو بے حیائی اور بدمعاشی کے اڈوں میں بدل دیا ہے۔ ان اشیاء کو دوسروں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کا ذریعہ قرار دینا محض خام خیالی ثابت ہوا۔ اس کے استعمال سے نہ صرف گلی کوچوں میں تبلیغ کے جذبات ماند پڑ گئے ہیں بلکہ ’’علما اور مبلغین‘‘ میں جذبۂ نمائش پروان چڑھا ہے۔ اسے انتہائی مجبوری یا یقینی فائدہ کے پیش نظر ہی استعمال کیا جانا چاہیے، البتہ کیسٹ اور ٹیپ ریکارڈ کے ذریعے اپنی آواز کو آگے پہنچانے میں کوئی قباحت نہیں۔ لہٰذا ہمارے نزدیک ٹیلی ویژن،ویڈیو وغیرہ کے استعمال سے پرہیز کرنا زیادہ بہتر ہے۔ سوال: تما م قرآن یا کچھ آیات کو عربی متن کے بغیر اور زبان میں لکھنا شرعاً جائز ہے یا نہیں، کیا ایسا کرنے سے تحریف کا دروازہ تونہیں کھلتا؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں۔ جواب: واضح رہے کہ کلام اللہ ہونے کے ناطے سے قرآنی آیات کا ادب و احترام انتہائی ضروری ہے اور ہر کلمہ گو مسلمان دل و جان سے اس کے ادب و احترام کو بجا لاتا ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن اور ترجمہ قرآن دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ عام طور پر اخبارات کوپڑھنے کے بعد انہیں ردی بنا دیا جاتا ہے، اس لئے بعض اخبارات میں تبلیغی نقطۂ نظر سے عربی متن کے بغیر قرآنی آیات کا صرف ترجمہ شائع کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ قرآنی الفاظ صرف بے ادبی کی وجہ سے نہیں لکھے جاتے، تاہم بہتر ہے کہ قرآنی آیات کا حوالہ دے دیا جائے، معمولی سا ایما ن رکھنے والا مسلمان قرآن مجید میں تحریف کا تصور بھی نہیں کرسکتا، البتہ جن ناعاقب اندیش لوگوں نے اس کے متعلق ہاتھ کی صفائی دکھانا ہوتی ہے، وہ بد باطن قرآنی آیات کی موجودگی میں بھی معنوی تحریف کا ارتکاب کرکے اپنی آخرت خراب کر بیٹھتے ہیں، چنانچہ آنجہانی غلام احمد پرویز کی بزعم خویش تفسیر ’’مفہوم القرآن‘‘ میں اس قسم کے متعدد شاہکار دیکھے جاسکتے ہیں۔ بالخصوص جو آیات معجزات سے متعلق ہیں ان میں مجازی معنی متعین کی آڑ میں یہودیانہ طرز عمل کی طرح خوب خوب تحریف معنوی کی گئی ہے۔ جو اس کی بد حواسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ صورت مسئولہ میں بہتر ہے کہ قرآنی آیات کا بھی حوالہ دے دیا جائے، تاہم ترجمہ پر اکتفا کرنا بھی جائز ہے، نیز اس ترجمہ کا ادب و احترام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ [واللہ اعلم] سوال: ہمارے ہاں اکثر خطیب حضرات واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو دوران سفر ایک ایسی عورت سے گفتگو کا موقع ملا جو ہر بات کا جواب قرآنی آیات سے دیتی تھیں اس واقعہ کی اصلیت کیا ہے؟ جواب: ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ واعظین حضرات قرآن و حدیث کے صحیح اور مستند واقعات کے بجائے من گھڑت قصے بیان کرنے کے عادی ہیں۔ چونکہ ان میں انوکھا پن ہوتا ہے، اس لئے انہیں جھوم جھوم کر بیان کیا جاتا ہے۔ مذکورہ واقعہ بھی اس قبیل سے ہے۔ افسوس کہ جماعت اہل حدیث سندھ کے ترجمان رسالہ ’’دعوت اہل حدیث‘‘ میں تحقیق و تبصرہ کے بغیر تین چار صفحات تک اسے پھیلا یا گیا ہے۔ عرصہ پچیس، تیس سال قبل بندہ نے اس واقعہ کے متعلق ’’ اہل حدیث‘‘ میں لکھا تھا کہ یہ بے بنیاد اور خود ساختہ ہے۔ غالباً علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کو بنیاد بنایا تھا۔ بہر حال یہ واقعہ ’’حکایہ متکلم بالقرآن کے عنوان سے المستطرف فی کل فن مستظرف۔‘‘ [ص۵۶،ج۱] میں بیان ہوا ہے۔ اس کا کوئی حوالہ باسند بیان نہیں ہوا۔ بلا سند واقعات اکثر و بیشتر خود ساختہ ہوتے ہیں ویسے بھی اس