کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 451
بھی پھیلائے گا، ایسے شخص کے ساتھ تعلقات رکھنا شرعاً کیسا ہے۔ کیا ایسے شخص کو سلام کرنا یا اس کے سلام کا جواب دینا درست ہے، کیا ایسے شخص کو زندیق کہا جاسکتا ہے، نیز زندیق کی شرعی طور پر سزا کیا ہے؟ جواب: واضح ہو کہ دین اسلام کی بنیاد قرآن اور اس کے بیان(حدیث)پر ہے۔بیان قرآن کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا ہے۔ آپ نے اپنے فرمودات و ارشادات او ر سیرت و کردار سے قرآن کریم کی وضاحت اور تشریح کی ہے جو ہمارے پاس کتب حدیث کی شکل میں موجود ہے۔ لیکن دور حاضر کے متجددین کتب حدیث کو ہدف تنقید بنا کر نہ صرف ان دفاتر حدیث کی توہین کا ارتکاب کرتے ہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ اعزاز بھی چھیننا چاہتے ہیں جو خود اللہ تعالیٰ نے آپ کوعطا فرمایا ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے ذریعہ قرآن کے اجمال کی تفصیل اور اطلاق کی تقلید دور حاضر کے ان معتزلہ و خوارج کو گوارا نہیں۔ وہ صرف اپنی عقل عیار کو معیار بنا کر قرآن کریم کی تشریح کرنا چاہتے ہیں تاکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ اس ضابطہ حیات کو اپنی من مانی تاویلات کی بھینٹ چڑھایا جاسکے۔ ان کے نزدیک حدیث او رکتب حدیث ایک ’’عجمی سازش‘‘ کا حصہ ہیں۔ صورت مسئولہ میں ایک شخص کے متعلق دریافت کیا گیا ہے جو توہین رسالت کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تشتت واختلاف کا موجب گردانتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ایسے لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں تاآنکہ وہ کسی دوسری بات میں لگ جائیں۔‘‘ [۴/النسآء: ۴۰] ایسے شخص کو مسجد یا دینی جماعت کا ممبر بنانا جائز نہیں ہے۔اس کے ساتھ تعلقات اصلاح احوال کے لئے تو رکھے جاسکتے ہیں لیکن اس قسم کے گندے جراثیم آگے منتقل ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے عضو کو کاٹ دینا ہی بہتر ہے، یعنی ایسے شخص سے روابط ختم کرلئے جائیں ایسے شخص کو سلام کرنے میں ابتدا نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر وہ سلام کہتا ہے تو اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔ بلا شبہ ایسا انسان زندیق و ملحد ہے اور اسلامی حکومت میں ایسے شخص کی سزا قتل ہے اور اس قسم کی سزا کا نفاذ بھی اسلامی حکومت کا کام ہے۔ [واللہ اعلم] سوال: کیا درس قرآن کی ویڈیو بنا ئی جاسکتی ہے تاکہ دوسرے لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا جائے، اگر جائز ہے تو کیا اس قسم کی ویڈیو فلمیں عورتیں دیکھ سکتی ہیں،نیز درس قرآن سننے کے لئے ٹی وی، یا ویڈیو گھر میں رکھا جاسکتا ہے؟ جواب: ویڈیو فلم کی بنیاد تصویر پر ہے اور تصویر کشی کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتناعی حکم وارد ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’جو لوگ تصویر کشی کا ارتکاب کرتے ہیں، انہیں قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا۔‘‘ [بخاری، اللباس: ۵۹۵۱] مذکورہ وعید صرف تصویر بنانے والے ہی کے متعلق نہیں ہے بلکہ استعمال کرنے والے کے متعلق بھی ہے، جیسا کہ ایک روایت میں ’’اصحاب الصور‘‘ یعنی تصویر رکھنے والے کے الفاظ بھی ہیں۔ [صحیح بخاری، اللباس:۵۹۵۷] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے احادیث کی شرح کرتے ہوئے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ [فتح الباری، ص:۲۸۸، ج۱۰] فتنہ تصویر کشی اپنی ارتقائی منزل طے کرتا ہوا اب ٹیلیویژن، ویڈیو اور انٹر نیٹ کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ انہی کی’’ برکات‘‘ ہیں کہ پہلے سینما گھر مخصوص مقامات ہوتے تھے اب ان کی آمد کے بعد جگہ جگہ یہ گندگی موجود ہے بلکہ کیبل سسٹم نے