کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 45
جب فضل کاذکرہوا ہے تواس کے ساتھ واحد کی ضمیراستعمال ہوئی ہے ۔یعنی اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے انہیں غنی کردیا۔ دوسرے الفاظ میں فضل وکرم کرنا صرف اﷲ تعالیٰ ہی کاکام ہے، اس میں اس کے رسو ل کاذرّہ برابر بھی حصہ نہیں ہے ۔اگرایسا ہوتا تواس کے ساتھ تثنیہ کی ضمیر استعمال کی جاتی بلکہ خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے فضل کے محتاج ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’قیامت کے دن تم میں سے کسی کواس کاعمل نجات نہیں دے گا۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اﷲ! آپ کوبھی نہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ’’مجھے بھی میراعمل نجات نہیں دلائے گا، ہاں اگر اﷲ تعالیٰ کافضل میرے شامل حال ہوجائے توالگ بات ہے۔‘‘ [صحیح بخاری، الرقاق: ۶۴۶۳]
نیز حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی وفات کے موقع پر جب ان کے متعلق حسن ظن کااظہار کیاگیا توآپ نے فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! مجھے اﷲ تعالیٰ کارسول ہونے کے باوجود علم نہیں کہ قیامت کے دن میرے ساتھ کیاسلوک کیا جائے گا۔‘‘ [صحیح بخاری، المناقب :۳۹۲۹ ]
آخر میں ہم اپنے معززقارئین اورسائلین سے یہی گزارش کریں گے کہ اسباب کے بغیر داتا، غوث اعظم، مشکل کشا اور غریب نواز صرف اﷲتعالیٰ کی ذات ہے، لہٰذا جب بھی دعا مانگو یامدد کے لیے پکارو توصرف اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو۔ [واﷲ اعلم بالصواب]
سوال: ایک عالم دین نے رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کومختار کل ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث پیش کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے صرف دونماز یں پڑھنے کے متعلق کہا، تو آپ نے اسے اجازت دے دی ۔جب آپ کونمازوں میں کمی کرنے کااختیار ہے تو دیگر کاموں کے متعلق بھی کلی اختیار رکھتے ہیں۔ یہ حدیث مسند احمد کے حوالہ سے پیش کی ہے وضاحت فرمائیں؟
جواب: مذکورہ حدیث بایں الفاظ مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور وہ اس شرط پرمسلمان ہوا کہ وہ صرف دونمازیں پڑھے گا توآپ نے اس کی شرط کوقبول کرلیا۔ [مسند امام احمد،ص ۳۶۳ج۵]
ہمیں بریلوی علما سے یہ شکوہ ہے کہ وہ ذخیرۂ احادیث میں سے صرف اپنے مطلب کی احادیث چن لیتے ہیں اورباقی ’’کیا تمام کتاب کے بعض احکام کومانتے ہو اور بعض کاانکار کردیتے ہو۔‘‘ [۲/البقرۃ :۸۵]
رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کادوسروں کے لیے مختار کل ہونا بہت دور کی بات ہے، آپ اپنے متعلق بھی کسی قسم کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’آپ کہہ دیجئے! مجھے خود اپنے نفع ونقصان کااختیار نہیں، مگر اﷲ تعالیٰ ہی جوچاہتا ہے وہ ہوتا ہے اوراگر میں غیب جانتا ہوتا توبہت سی بھلائیاں حاصل کرلیتا اورمجھے کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچتی ۔‘‘ [۷/الاعراف:۱۸۸]
نمازوں کے متعلق کمی وبیشی کااختیار بھی آپ کے پاس بالکل نہیں تھا۔ اگر ایسا ہوتا توجب نمازیں فرض ہوئی تھیں تو بار بار اﷲ کے حضور تحفیف کی درخواست نہ کرتے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ معراج کے موقع پررسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کوپچاس نمازوں کا تحفہ ملا۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کے کہنے پر نو (۹) مرتبہ اﷲ تعالیٰ کے حضور تخفیف کی درخواست کی ہرمرتبہ پانچ نمازیں معاف ہوئیں اس طرح