کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 447
صارف اس کی ہر ماہ مقررہ رقم ادا کرتا ہے، اس لئے ضروری ہے کہ محکمہ سے اجازت لے کر گھر کے لئے الگ میٹر نصب کرایا جائے تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہے، اسی طرح گھریلو میٹر کو کمرشل بنیادوں پر استعمال کرنا بھی شرعاً درست نہیں ہے۔ [واللہ اعلم] سوال: کسی کا پیدائشی طور پر ہونٹ یا کان کٹا ہوا ہو تو اس کی پلاسٹک سرجری کروانا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: اللہ تعالیٰ کا نظا م ہے کہ عام طور پر ماں کے پیٹ سے جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو ساخت و بناوٹ اور شکل و صورت کے لحاظ سے مکمل ہوتا ہے لیکن بعض اوقات قدرتی اسباب کے پیش نظر غذائی مواد کی کمی یا کیمیائی تبدیلی کی وجہ سے بچہ ناقص الخلقت پیدا ہوتا ہے، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بچوں کی چار انگلیاں ہوتی ہیں اور بعض اوقات ان کا ہونٹ درمیان سے کٹا ہوتا ہے، جو صحیح اور درست بات چیت کرنے میں رکاوٹ بن جاتاہے۔ ایسے حالات میں اگرکوئی علاج ممکن ہے تو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے۔ آنکھوں کی بینائی اگر ختم ہو جائے تو آپریشن کے ذریعہ اسے بحال کیا جاتاہے۔ پیدائشی ٹیڑھے پائوں اور اوپر نیچے دانت ہموار کئے جاسکتے ہیں۔شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ حدیث میں ہے کہ عرفجہ بن اسعد کا ناک دور جاہلیت میں جنگ کلاب کے دوران کٹ گیا تھا تو اس نے چاندی کا ناک لگوا لیا، لیکن اس میں تعفن پڑ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سونے کا ناک لگوانے کی اجازت دے دی۔ [نسائی، الزینتہ:۵۱۶۴] لیکن آج کل اس جدید طریقہ علاج سے غلط فائدہ اٹھایا جارہا ہے کہ ’’اس بازار‘‘ کی عورتوں کے چہروں پر عمر رسیدگی یا نحوست کی وجہ سے جھریاں پڑ جاتی ہیں تو وہ اپنے نسوانی حسن کو بحال کرانے کے لئے اسی طریقہ علاج کا سہارا لیتی ہیں۔ ہمارے نزدیک ایساکرنا جرم و حرام اور ناجائز ہے، کیونکہ اس سے دجل اور دھوکہ دینا مقصود ہوتا ہے، اس لئے شریعت ایسے حالات میں فطرت سے چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں دیتی۔ مصنوعی بالوں کا استعمال بھی اسی وجہ سے ممنوع ہے۔ ہاں قدرتی بال اگانے کا بندوبست بذریعہ سرجری درست ہے تو شریعت میں اس طریقہ علاج کی گنجائش ہے۔ بشرطیکہ اسے غلط طور پر استعمال نہ کیا جائے۔ [ واللہ اعلم] سوال: کیا خنزیر کے اعضاء انسانی جسم میں لگائے جاسکتے ہیں؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس کی حیثیت واضح کریں۔ جواب: شریعت نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ صرف انسان کی فلاح و بہبود کی وجہ سے ہے کیونکہ یہ حرام اشیاء کبھی انسان کے جسم کے لئے ضرر رساں ہو تی ہیں اور کبھی اس کے اخلاق و کردارکو تباہ کردیتی ہیں۔ اگرچہ ظاہری طور پر ان میں کوئی فائدہ بھی ہوتا ہے، تاہم اس میں نقصان کا پہلو بہر صورت غالب ہے۔بعض اوقات ہماری ظاہر بین آنکھیں اس نقصان کے ادراک سے قاصر ہوتی ہیں۔ خنزیر کے گوشت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تم پر مردار، خون اور سور کا گوشت حرام کیا گیا ہے۔‘‘ [۵/المائدہ:۳] ایک دوسرے مقام پر اس کی وجہ بیان فرمائی کہ ’’وہ ناپاک اور نجس ہے۔‘‘ [۶/الانعام: ۱۴۵] حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے کسی ایسی چیز میں شفا نہیں رکھی جو ان پر حرام