کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 44
کی بعض صفات ایسی ہیں کہ قرآن پاک میں ان کا اطلاق بندوں پربھی کیاگیا ہے۔ مثلاً: اﷲتعالیٰ سمیع اور بصیر ہے توانسان کے لیے بھی سمیع اور بصیر کااطلاق ہوا ہے ۔ [۷۶/الدھر:۲]
لیکن اﷲتعالیٰ کاسمیع وبصیر ہونا اس کی شان کے مطابق ہے اوربندے کاسمیع وبصیر ہونا اس کی شان کے لائق ہے۔ یعنی بندے کی سماعت وبصارت انتہائی محدود ہے۔ کیونکہ بندہ پس پردہ نہ کوئی چیز دیکھ سکتا ہے اور نہ ہی سن سکتاہے، جبکہ اﷲ تعالیٰ ایسے عیوب ونقائص سے پاک ہے ۔اﷲتعالیٰ نے یہ بھی صراحت فرمائی ہے کہ ’’اس کی ذات وصفات میں کوئی دوسرا اس جیسا نہیں ہے۔‘‘ [۴۲/الشوریٰ: ۱۱]
سوال میں خودہی ان نفوسِ قدسیہ کی طرف ایسی صفات کاانتساب کیا گیا ہے جس کاثبوت قرآن پاک وحدیث میں نہیں ہے۔ پھر خود ہی صغریٰ کبریٰ ملاکراس سے غلط مقصد کشید کرلیا گیا کہ اﷲتعالیٰ مشکل کشا ہے تو علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا کیوں نہیں؟ مشکل کشا تواﷲ تعالیٰ کی صفت ہے اسے مخلوق میں کس بنیاد پرتسلیم کیاجائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ توخود مشکلات میں پھنسے رہے وہ اپنے لیے مشکل کشائی نہ کرسکے تو دوسروں کے لیے کیونکر مشکل کشا ہوسکتے ہیں ۔ارشادباری تعالیٰ ہے :
’’آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اچھا یہ توبتاؤ کہ جنہیں تم اﷲتعالیٰ کے سوا پکارتے ہو اگر اﷲ تعالیٰ مجھے نقصا ن پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصا ن کوہٹاسکتے ہیں ؟یااﷲ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کاارادہ کرے توکیایہ اس کی مہربانی کوروک سکتے ہیں۔‘‘ [۳۹/الزمر:۳۸]
اﷲ تعالیٰ نے اس آیتِ کریمہ میں رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی پوزیشن کوواضح فرمایا ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتے ہیں کہ وہ مشکل کشا بن جائیں ۔کتاب وسنت میں اس کے لیے کوئی سند نہیں ہے۔ یہی سب خود ساختہ اورایجاد بندہ ہیں ۔بلاشبہ سورۂ یوسف میں متعدد مرتبہ بادشاہ کے لیے ربّ کالفظ استعمال ہوا ہے لیکن وہ علی الاطلاق نہیں اور اضافت کے ساتھ دونوں طرح مستعمل ہے، پھر جب بندے کے لیے اس لفظ کااستعمال ہوتا ہے تواس کی تانیث بھی کلام عرب میں مستعمل ہے، مثلاً: گھر کی مالکہ کوعربی میں ’’ربّۃ البیت‘‘ کہتے ہیں جبکہ اﷲ تعالیٰ کے لیے اس کی تانیث کااستعمال شرک اکبر ہے۔ سوال میں یہ استد لال بھی عجیب ہے کہ اگر بادشاہ رب ہے توعلی ہجویری رحمہ اللہ داتا اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ غوث اعظم کیوں نہیں ؟یہ تو ایسا ہی استد لا ل ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے شخص کے باپ کاہم نا م ہوتوپہلاشخص دعویٰ کردے کہ میرا باپ آپ کے باپ کی جائیداد میں برابرکاشریک ہے ۔کسی کے ہم نام ہونے کایہ معنی نہیں ہے کہ کوئی دوسرا ان کی جائیداد میں حصہ دار ہے ۔ سوال میں قرآن پاک کے حوالے سے ایک اورمغالطہ دینے کی کوشش کی گئی ہے ۔جومجرمانہ کوشش کے مترادف ہے، یعنی اﷲ تعالیٰ اوراس کا رسول اپنے فضل سے تمہیں غنی کردے گا۔ قرآنِ پاک میں اس قسم کے الفاظ قطعاًنہیں ہیں اگر ایسا سہوًا نہیں ہوا تویہ ایک ایسی تحریف ہے جس کاارتکاب یہودی کیاکرتے تھے۔ قرآنِ پاک میں ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’منافقین صرف اس بات کا انتقام لے رہے ہیں کہ انہیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اور اس کے رسول نے دولت مند کردیا ہے ۔ ‘‘ [۹/توبہ :۷۴]
اس آیت کریمہ سے یہ مفر وضہ کشید کیاگیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس کے رسول بھی فضل فرماتے ہیں تو’’یارسول اﷲ! فضل کریں‘‘ کہنا بھی صحیح ہے العیاذ باﷲ حالانکہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ اس کے رسول کاذکر اس لیے ہے کہ اس غنااورتونگری کاظاہری سبب رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہی بنی تھی، ورنہ حقیقت میں غنی بنانے والااﷲ تعالیٰ ہی تھا۔یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ میں