کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 437
فیصلہ ‘‘قراردیاجاسکتا ہے ،ایسے مواقع پر خاوند کواپناکردار اداکرناچاہیے، جیساکہ ہم نے اپنے جواب کے آخر میں لکھا تھا۔ خاوند کوچاہیے کہ وہ افہام و تفہیم کے ذریعے ایسے کاموں کوسرانجام دے اورمحبت واتفاق کی فضا کوبرقراررکھتے ہوئے خودبھی والدین کی خدمت کرے اوراپنی بیوی کوبھی یہ سعادت حاصل کرنے لئے پابندبنائے۔ محترم کے بیان کردہ حالات کے پیش نظر ہمارے سامنے بیوی کے لئے دوراستے ہیں: ایک عزیمت کا۔ دوسرارخصت کا۔ بدسلوکی دیکھ کرحسن سلوک کامظاہر ہ کیاجائے لیکن یہ بہت مشکل اورگراں ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’’نیکی اوربرائی کبھی ایک جیسی نہیں ہوسکتیں ،آپ بدی کوایسی بات سے دفع کیجئے جواچھی ہو ،آپ دیکھیں گے کہ جس شخص کی آپ سے عداوت تھی وہ آپ کاگہرادوست بن گیا ہے اوریہ بات صرف انہیں نصیب ہوتی ہے جوبڑے صبر کیش ہوتے ہیں اوریہ اعزازصرف ان کو ملتا ہے جوبڑے نصیب والے ہوتے ہیں ۔‘‘ [۴۱/حٰمٓ السجدہ :۳۴۔۳۵] اس عزیمت پرعمل پیراہونابچوں کاکھیل نہیں بلکہ بڑے حوصلہ مند اور جگرگردہ رکھنے والوں کاکام ہے لیکن آخرکار یہ لوگ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں، لہٰذا اگرعزیمت پرعمل کرتاہے توخاوند کے والدین اوراس کے بہن بھائیوں کی بدسلوکی برداشت کرکے خدمت گزاری کافریضہ سرانجام دیتے رہناچاہیے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ’’صلہ رحمی کرنے والاوہ نہیں ہوتا جواچھابرتاؤ کرنے والے سے خوش اسلوبی سے پیش آئے کیونکہ یہ ادلے کابدلہ ہے ۔صلہ رحمی کرنے والادراصل وہ ہے جوقطع تعلقی کرنے والوں کے ساتھ بھی نرم رویہ اور ملنساری سے پیش آئے ۔‘‘ [صحیح بخاری ، الادب :۵۹۹۱] ٭ دوسراراستہ رخصت کا ہے، بشرطیکہ خاوند کاساتھ دے ،والدین سے علیحدگی اختیارکرلی جائے ،شادی کے بعد والدین سے علیحدہ ہوجانا ہمارے معاشرے کاایک حصہ ہے اورشریعت نے اسے بری نگاہ سے نہیں دیکھا ہے، بیوی خاوند اگرعلیحدہ رہیں گے توہرروز کی گھٹن اورتوتکار سے نجات مل جائے گی۔اکھٹے رہتے ہوئے حالات مزیدخراب ہوسکتے ہیں ۔آخرصبروہمت کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ اگرعزیمت پرعمل کرنے کی ہمت نہ ہواورعلیحدگی اختیار کرنے میں خاوند ساتھ نہ دے توزندگی اجیرن بنانے کے بجائے شریعت نے ایک دوسراراستہ اپنانے کاہمیں اختیاردیا ہے، وہ خلع لینے کاہے ۔صحابیات مبشرات lکی مثالیں موجود ہیں جب نباہ کی کوئی صورت نظرنہیں آئی توانہوں نے کچھ دے دلاکر اپنے خاوند سے خلع حاصل کرلیا۔ آخر میں ہمارا مشورہ ہے کہ برادری کے طورپر خاوند کے والدین کوسمجھایا جائے اورانہیں کتاب وسنت کی روشنی میں بچی کے ساتھ حسن سلوک کرنے پرآمادہ کیاجائے اوراگربچی میں کوئی قصور ہے تواسے بھی دورکرنے کی کوشش کی جائے، تاکہ زندگی کے یہ چند مستعاردن خوش اسلوبی سے گزرجائیں ۔ [واللہ اعلم بالصواب] سوال: ہمارے ہاں کچھ دن پہلے ایک قتل ہوا ،میں نے گولی چلنے کی آواز سنی اورایک آدمی کوہاتھ میں بندوق لیے ہوئے بھی دیکھا لیکن گولی چلاتے ہوئے نہیں دیکھا ،میں نے عدالت میں گواہی دیدی ہے کہ اسی آدمی نے قتل کیاہے ،کیا یہ گواہی شرعاًدرست ہے؟