کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 435
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان سن کرایک شخص کھڑاہوا اورعرض کرنے لگا: یارسول اللہ! میں نے توفلاں جنگ میں شریک ہونے کے لئے اپنانام لکھوادیا ہے جبکہ میری بیوی کاحج پر جانے کاپروگرام ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جنگ میں شریک ہونے کے بجائے تم اپنی بیوی کے ساتھ حج پرجاؤ۔‘‘ [حوالہ مذکورہ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مجاہد کو جنگ میں نہ جانے کاحکم دیا اس کامطلب یہ ہے کہ عورت کے لئے دوران سفر محرم کا ساتھ ہونا ضروری ہے، حالانکہ صحابی جنگ میں شرکت کے لئے اپنا نام لکھواچکے تھے ،پھر عورت کاسفر بھی حج جیسی عظیم عبادت کے لئے تھا جو یقینا عورتوں کے لئے باہرتبلیغ کرنے سے کم تر نہیں ہے، اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ ’’وہ جہاد کو چھوڑ دے اور اپنی بیوی کے ہمراہ حج پرجائے‘‘ اس سے اس مسئلہ کی اہمیت کاپتہ چلتا ہے ۔ہمارے نزدیک عورتوں کاگروپ کی صورت میں دوسرے شہروں میں تبلیغ کے لئے باہرجاناجائز نہیں ہے، اگرچہ ایک کا محرم ساتھ ہو۔ ہاں! جن کے محرم ساتھ ہیں وہ اپنے خاوند یاسرپرست کی اجازت سے بیرون شہر یا دوسرے شہروں میں تبلیغ کے لئے جا سکتی ہیں۔ واضح رہے کہ اہل علم نے محرم کے لئے پانچ شرائط کا پایا جانا ضروری قرار دیا ہے: 1۔ مر دہو۔ 2۔ مسلمان ہو۔ 3۔ عاقل ہو۔ 4۔ با لغ ہو۔ 5 وہ اس عورت کے لئے ابدی طورپر حرام ہو۔ مثلاًوالد ،بیٹا ،بھائی ،چچا،سسر،والدہ کاخاوند اوررضاعی بھائی وغیرہ اور جن رشتہ داروں سے وقتی طورپر نکاح حرام ہے، مثلاً: بہنوئی، پھوپھااورخالو وغیرہ وہ اس طرح کے محرم نہیں ہوسکتے ،اسی طرح عورت کادیور،اس کاچچا زاد اورماموں زادبھی اس کامحرم نہیں ہوسکے گا،لہٰذاان کے ساتھ بھی عورت کاسفر کرناجائز نہیں ہے۔ یادرہے کہ مدرسہ کاناظم اگرعمررسیدہ اوربزرگ ہوتوبھی معلمات اور مبلغات کے ساتھ تبلیغی دورہ پرنہیں جاسکتا، اِلاَّیہ کہ مبلّغہ یامعلمہ اس کی بیٹی یابہن ہوجس کے ساتھ اس کانکاح نہیں ہوسکتا، الغرض ہمارے ہاں یہ عام طورپر وبا ہے کہ مبلغات مدرسہ کی گاڑی میں غیر محرم ڈرائیور کے ساتھ سفرکرتی ہیں اورصرف ایک دو مبلغات کے محرم ہوتے ہیں ایساکرناشرعاًجائزنہیں ہے ۔ایسی تبلیغ سے کیاحاصل ہوگا جس سے عورت کی پردہ داری مجروح ہوتی ہویا اسلام کے دوسرے ضابطے پامال ہوتے ہوں ۔ [واللہ اعلم] سوال: ہمارے گھر میں اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے، اس کے باوجود میرے خاوند گھریلو اخراجات کے متعلق بہت تنگ کرتے ہیں، ایسے حالات میں مجھے شرعا اجازت ہے کہ میں گھریلو اخراجات کے لئے اپنے خاوند کی جیب سے اس کی اجازت کے بغیر پیسے نکال لوں؟ جواب: نکاح کے بعد بیوی کے جملہ اخراجات کی ذمہ داری خاوند پر عائد ہوتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’خوشحال کو چاہیے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اخراجات پورے کرے اور تنگدست اللہ کی دی ہوئی حیثیت کے مطابق خرچہ دے۔‘‘ [۶۵/الطلاق:۷] اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسی بات کی تلقین فرمائی ہے حدیث میں ہے: ’’بیوی کے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے اخراجات تمہارے ذمے ہیں۔‘‘ [صحیح مسلم، الحج:۲۹۵۰]