کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 434
کودیکھ لیاجائے کہ وہ اسلامی طریقہ کے مطابق نماز پڑھتا ہو،نمازاداکرتے وقت مسلمانوں کے قبلہ کی طرف ہی رخ کرتا ہو اور اہل اسلام کے ذبیحہ سے نفرت نہ کرتاہو بلکہ بلاحجاب اسے کھالیتا ہو۔ [صحیح بخاری ،الصلوٰۃ :۳۹۲] بخاری کی ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کی بجاآوری پرمسلمانوں کے جملہ حقوق میں شریک ہے اورجملہ فرائض وواجبات کاپابندہے ۔ [صحیح بخاری ،الصلوٰۃ:۳۹۳] شریعت نے اس بات کا پاپند نہیں کیاکہ لوگوں کے ایمان اوراسلام دیکھنے کے لئے دقت نظری اور باریک بینی کامظاہرہ کریں۔ زکوٰۃ دینے کے لئے بھی اسلام کی موٹی موٹی علامتوں کودیکھناہوگا،بدقسمتی سے ہمارے ہاں دوسروں کا اسلام دیکھنے کے لئے جومعیار رائج ہواہے اس کے پیش نظر توشایداعلیٰ نسل کے معیاری مسلمان دستیاب نہ ہوسکیں ،کیا زکوٰۃ دینے والوں کے اسلام کو بھی اسی ترازومیں تولاجاتا ہے ۔جوزکوٰۃ وصول کرنے والوں کے لئے ہم نے قائم کررکھا ہے۔سوال میں جس قسم کے حاجت مند کاذکر ہے وہ قطعاًمسلمانوں کی زکوٰۃ کا حق دار نہیں ہے لیکن متقی ،سلفی اورموحد جیسی شرائط بھی محل نظرہے ،زکوٰۃ دینے کے لئے اسلام کی پیش کردہ موٹی موٹی علامتوں کودیکھ لیناکافی ہے ۔واضح رہے کہ اگرکسی نے منافقانہ طورپر مذکورہ اسلامی شعائر کو اختیار کرلیا ہے اوراسلام کے خلاف سنگین قسم کے عقائدو نظریات کاحامل ہواورگھناؤ نے کافرانہ اورمشرکانہ اعمال کامرتکب ہو، ایسے لوگوں کااسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔مذکورہ شخص اگرچہ زکوٰۃ کاحق دارنہیں ہے، تا ہم ہمیں چاہیے کہ زکوٰۃ کے علاوہ اپنی ذاتی گرہ سے اس کاعلاج معالجہ کریں، اس کی طرف دست تعاون بڑھائیں ،ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ کافروں کے ساتھ بھی حسن سلوک اور رواداری کاحکم دیتا ہے ۔ [۶۰/الممتحنہ:۸] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے کہ ’’ہرزندہ جگررکھنے والے کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں اجر وثواب ہے۔‘‘ [صحیح بخاری ،المساقاۃ:۲۳۶۳] قرآنی آیت اورحدیث نبوی کے پیش نظر مذکورہ شخص زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے تعاون کاحقدار ہے ۔اسے نظرانداز نہیں کرنا چاہیے ۔ [واللہ اعلم ] سوال: ہمارے ادارہ کی معلمات گروپ کی صورت میں تبلیغ کے لئے بیرون شہرجاتی ہیں ،بعض دفعہ دوردراز شہروں میں تبلیغی دورہ ہوتاہے ،ان کے ساتھ دوتین مبلغات کے محرم بھی ہوتے ہیں ،کیاایسے حالات میں دوسری مبلغات کاان کے ساتھ جاناشرعاًجائز ہے؟ براہِ کرم اولین فرصت میں فتویٰ دیں۔ جواب: دین اسلام کی تبلیغ ہرمردوزن پرفرض ہے لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ شریعت کاکوئی دوسرا ضابطہ مجروح نہ ہو، اسلام نے عورت کی پاکدامنی اوراس کی عزت وناموس کی حفاظت کی خاطردوران سفرمحرم کی شرط لگائی ہے، تاکہ اس صنف نازک کو شہوانی اغراض اورغلط مقاصد سے محفوظ رکھاجاسکے ۔محرم کی معیت کی شرط، اس لئے رکھی ہے تاکہ وہ دوران سفر اس عورت کی معاونت کر سکے، اس لئے شرعی طورپر محرم کے بغیر عورت کاسفر کرناجائز نہیں ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کوئی بھی عورت محرم کے بغیر سفرنہ کرے ۔‘‘ [صحیح بخاری ،الجہاد:۳۰۰۶]