کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 431
ان تصریحات کی روشنی میں کسی اجنبی مرد کے لئے جائز نہیں ہے ۔کہ وہ کسی اجنبی عورت کاسرچھومے یااس سے مصافحہ کرے خواہ وہ اس کی استانی ہی کیوں نہ ہو ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے اسے نظراندازکرکے عزت و احترام کے خودساختہ ضابطوں پرعمل کرناخودکوہلاکت میں ڈالنا ہے، البتہ استاد کے حقوق کوفراموش نہیں کرناچاہیے اوراس کے احترام میں کمی نہیں آنی چاہیے، شاگرد کوچاہیے کہ وہ اپنے استاد(خواہ مرد ہو یاعورت ) کی خبرگیری کرتارہے ۔ [واللہ اعلم] سوال: بعض کتب دینیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ ’’صلعم‘‘ لکھاہوتا ہے۔اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام کے ساتھ’’ ؓ ‘‘ کی علامت لکھی ہوتی ہے ،اس قسم کی علامت اوراختصار کی کیاحیثیت ہے؟ جواب: اسلامی آداب میں سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسم گرامی کے ساتھ محبت اورچاہت سے ’’ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ لکھاجائے، اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسمائے شریفہ کے ساتھ ’’ رضی اللہ عنہم ‘‘تحریر کیاجائے ،دیگر انبیائے کرام کے ساتھ ’’f‘‘ اورمتقدمین اسلاف کے ساتھ ’’رحمہ اللہ تعالیٰ‘‘زندہ عالم کے ساتھ ’’حفظہ اللہ ‘‘اور برخورداران کے ساتھ ’’سلمہ اللہ‘‘ لکھا جائے۔محدثین عظام نے وضاحت کی ہے کہ صلی اللہ علیہ وسلم یا رضی اللہ عنہ کو اختصار کی علامت سے نہ لکھا جائے، اورنہ ہی اسے باربار لکھنے سے دل میں کسی قسم کی اکتاہٹ پیدا ہونی چاہیے۔ چنانچہ شارح صحیح مسلم علامہ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ’’کاتب کوچاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرصلوٰۃ و تسلیم لکھنے کی پابندی کرے اور باربارلکھنے میں کوئی اکتاہٹ محسوس نہ کرے، جوشخص اس سے غفلت کرتا ہے وہ گویاخیر کثیر سے محروم ہو گیا ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کے ساتھ عزوجل جیسے الفاظ لکھے، نیزصحابہ کرام کے لیے رضی اللہ عنہم اوردیگر اخیار امت کے لئے رحمہ اللہ جیسے الفاظ کاانتخاب کرے ،اس سلسلہ میں رموز واشارات سے کام نہ لے بلکہ انہیں کامل طورپرلکھاجائے۔‘‘ [شرح تقریب النووی، ص ۲۹۱] علامہ سیوطی اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اگرچہ عزیز وجلیل ہیں لیکن آپ کے لئے عزوجل کے الفاظ نہ لکھے جائیں، اسی طرح صلوٰۃ وسلام کے الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے استعمال نہ کیے جائیں جیساکہ امام نووی نے شرح مسلم میں وضاحت کی ہے ۔ [تدریب الراوی، ص:۲۹۳] علامہ محمد جمال الدین قاسمی نے اپنی تالیف ’’قواعد التحدیث ‘‘ میں باقاعدہ آداب کا عنوان بیان کرکے بڑی تفصیل سے اس مسئلہ کاحق اداکیاہے۔ [قواعد التحدیث] لہٰذا ہمیں اس سلسلہ میں سستی یاکوتاہی سے کام نہیں لیناچاہیے ،بلکہ ثواب وآداب کی نیت سے اللہ تعالیٰ اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ذکرخیر پرمذکورہ آداب لکھنے کی پابندی کرنی چاہیے۔ [واللہ اعلم ] سوال: عام طورپر تھانہ جات کی دیوار پریہ حدیث لکھی ہوتی ہے کہ ’’رشوت دینے والااورلینے والادونوں آگ میں ہوں گے‘‘۔ وضاحت فرمائیں کہ مندرجہ بالاحدیث کس مستند کتاب میں موجود ہے؟ جواب: حدیث کے الفاظ تلاش بسیار کے باوجود مجھے دستیاب نہیں ہو سکے، البتہ حافظ ہیثمی نے مسند البزار کے حوالہ سے بروایت عبدالرحمن بن عوف اس حدیث کا ذکر کیا ہے، نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے حدیث طبرانی کے حوالہ سے بیان کی ہے لیکن ان دونوں احادیث میں ’’کلاھما‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں ۔ [مجمع الزوائد، ص: ۱۹۹، ج۴]