کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 413
ذکر کے لئے مختص کردے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال ماہ رمضان میں د س دن کااعتکاف کرتے تھے اورجس سال آپ فوت ہوئے اس سال بیس دن کااعتکاف فرمایا تھا۔ [صحیح بخاری، الصوم، الاعتکاف: ۲۰۴۴] احادیث میں اعتکاف کرنے کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جوشخص اللہ کی رضاجوئی کے لئے صرف ایک دن کااعتکاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے اورجہنم کے درمیان تین خندقوں کوحائل کردیں گے ۔ایک خندق کے دونوں کناروں کافاصلہ مشرق سے مغرب تک ہوگا۔‘‘ [قیام رمضان بحوالہ طبرانی باسنادحسن ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں بحالت اعتکاف عبادت کے لئے اتنی محنت اورمشقت اٹھاتے کہ دوسرے دنوں میں اتنی کوشش نہ کرتے تھے۔ [صحیح مسلم ،الاعتکاف :۱۱۷۵] روایت میں اس کوشش کی تفصیل بھی بیان ہوئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کے لئے کمربستہ ہوجاتے۔ رات کوعبادت کرکے اسے زندہ رکھتے اوراپنے اہل وعیال کوعبادت کے لئے بیدار کرتے۔ [صحیح بخاری ، الصوم : ۲۰۲۴] حضرت زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کابیان ہے کہ جب رمضان ختم ہونے میں دس دن باقی رہ جاتے گھر میں ہر اس فرد کو نیند سے اٹھادیتے جوقیام کی طاقت رکھتا تھا ۔ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف اورطاق راتوں کاقیام ایک انفرادی عبادت ہے۔صرف نماز تراویح کواداکرنے میں اجتماعیت کوبرقراررکھنے کی گنجائش ہے ،اس کے علاوہ کسی مقام پر اجتماعیت نظرنہیں آتی ،اس لئے ہمیں ان قیمتی دنوں اورسنہری راتوں کواجتماعی اعتکاف اوراجتماعی مجالس کی نذر نہیں کردیناچاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس کی نظیرنہیں ملتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جوشخص ہمارے دین میں کسی نئی چیز کورواج دیتا ہے جس کا تعلق دین سے نہیں ہے، وہ مردودہے۔‘‘ [صحیح بخاری ،الصلح :۲۶۹۷] اسی طرح آپ کافرمان ہے کہ ’’جس شخص نے ایساکام کیاجس پرہماراامرنہیں ہے وہ رد کردینے کے قابل ہے۔‘‘ [صحیح بخاری ، باب نمبر :۶۰] ان احادیث کاتقاضا ہے کہ ایسے اعمال وافعال سے اجتناب کیاجائے ،جن کاکتاب وسنت سے ثبوت نہیں ملتا ،کیونکہ بدعات کے ارتکاب سے ثواب کے بجائے الٹاگناہ کااندیشہ ہے ۔ [واللہ اعلم] سوال: احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ باہمی دوڑمیں مقابلہ کیا تھا، اس مقابلے کو عورتوں کے لئے کھیل کود کوجائز قراردینے کی بنیادقراردیاجاسکتا ہے ؟ جواب: جس واقعہ کو سوال میں ذکر کیاگیا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک سفر تھیں، جبکہ آپ کی عمر زیادہ نہ تھی نہ ہی آپ کاجسم فربہ ہواتھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:’’تم ذرا آگے چلے جاؤ۔‘‘جب وہ تعمیل کرتے ہوئے کچھ آگے چلے گئے توآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ ’’تم میرے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کرو۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں دوڑتے ہوئے آپ سے آگے بڑھ گئی ،پھرعرصہ درازکے بعد ایک مرتبہ پھرحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے شریک سفرتھیں ،آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا ’’کہ تم ذراآگے چلے جاؤ۔‘‘پھرآپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ