کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 2) - صفحہ 409
چونکہ ہمارے ملک کی سزائیں غیرشرعی ہیں اورحد کامتبادل نہیں ہیں، اس لئے مروجہ سزالینے کے بعد بھی اسے توبہ کرتے رہناچاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مواخذہ سے محفوظ رہے ۔صورت مسئولہ میں زانی کوسزا لیناہوگی ،اگراس کے بغیر صرف توبہ پر اکتفا کرتا ہے تومعاملہ اللہ کے سپرد ہے چاہے تومعاف کردے اورچاہے تو مواخذہ کرے ۔ [واللہ اعلم] سوال: ایک آدمی کسی دوسرے شخص سے اس کی پرائیویٹ بات پوچھناچاہتا ہے جبکہ وہ اسے نہیں بتانا چاہتا ،کیا ایسے حالات میں جھوٹ بو ل کردوسرے شخص کوٹالاجاسکتا ہے؟ جواب: شریعت اسلامیہ میں جھوٹ بولنا سنگین جرم ہے۔ احادیث میں بات بات پرجھوٹ بولنا منافقین کی علامت قرار دیا گیا ہے ۔صرف تین مواقع پرخلاف واقعہ بات کہنے کی اجازت ہے: 1۔ دوبھائیوں یادوستوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے خلاف واقعہ بات کی جاسکتی ہے ۔ 2۔ بیوی خاوندآپس کی ناچاقی کودورکرنے کے لئے بقدر ضرورت خلاف واقعہ بات کرسکتے ہیں ۔ 3۔ میدان جہاد میں دشمن کی چالوں کوناکام کرنے کے لئے جھوٹ بولاجاسکتا ہے ۔ صورت مسئولہ ان صورتوں میں سے نہیں ہے، لہٰذا اگرکوئی دوسرے کواپنی پرائیویٹ بات نہیں بتانا چاہتا تواسے مجبور نہیں کیا جاسکتا اورنہ ہی اس سلسلہ میں جھوٹ بولنے کی اجازت ہے ۔کھلے الفاظ میں صاف کہہ دیاجائے کہ میں اس بات کوکسی پرظاہرنہیں کرنا چاہتا ،جھوٹ بولنے کی ضرورت یااجازت نہیں ہے ۔ [واللہ اعلم] سوال: ایک بچے نے دن کے وقت گندم کے کھلیان کوآگ لگادی ،اس کے آگ لگانے میں کسی کے مشورے کو دخل نہیں۔ اس سے کافی نقصان ہوا ہے ،کیااس نقصان کی تلافی بچے کے ورثا کوکرناہوگی یا نہیں، نقصان اداکرنے کی صورت میں پورے نقصان کے ذمہ دار ہوں گے یاکچھ نقصان ادا کرنا ہو گا؟ جواب: شریعت اسلامیہ میں بعض افراد کوحقوق وواجبات کی ادائیگی میں مرفوع القلم قراردیاگیا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’دیوانہ ہوش آنے تک ،بچہ بالغ ہونے تک اورسونے والا بیدار ہونے تک مرفوع القلم ہیں۔‘‘ [مسند امام احمد] محدثین کرام نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بچہ مواخذہ کے لحاظ سے مرفوع القلم ہے۔ اگرنیکی اورثواب کے کام کرتا ہے تواسے محروم نہیں کیا جائے گا، البتہ جو حقوق انسانوں سے متعلق ہیں اس کامعاملہ کچھ الگ ہے، اگرچہ بچے کوباز پرس نہیں ہو گی، تاہم اس کے ورثا نقصان کے ذمہ دارہوں گے۔ چنانچہ فقہا نے صراحت کی ہے کہ بچہ میں اہلیت ادا معدوم ہوتی ہے، اس لئے اس کے اقوال و افعال پرکوئی شرعی مواخذہ نہیں ہوگا اورنہ ہی معاملات میں اس کے تصرفات کااعتبار کیاجائے گا زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ بچہ جب کسی کانقصان کرے گاتومالی لحاظ سے وہ قابل مواخذہ ہو گا البتہ بدنی لحاظ سے اسے سزا وغیرہ نہیں دی جائے گی، مثلاً: بچہ کسی کوقتل کردیتا ہے یاکسی کے مال کونقصان پہنچاتا ہے تومقتول کی دیت اورمال کی تلافی بہرصورت کرناہوگی۔ لیکن اس سے قصاص نہیں لیاجائے گا ۔ [علم اصول الفقہ، ص :۱۳۷] اس طرح بچے کے مال میںزکوٰۃ بھی عائد ہوتی ہے، جیسا کہ محدثین کرام نے لکھا ہے۔ اس بنا پر صورت مسئولہ میں جو نقصان